Ticker

6/recent/ticker-posts

یومِ اساتذہ (ٹیچرز ڈے)منانا شرعاً کیسا ہے؟

یومِ اساتذہ (ٹیچرز ڈے)منانا شرعاً کیسا ہے؟

سوال :

ٹیچرز ڈے منانا کیسا ہے؟؟

الجواب بعون الوھاب

ٹیچرز ڈے یہ سب یہود ونصاری کی پیدائش ہے اور اسلام نے غیر اسلامی اقوام سے مشابہت کی ممانعت فرمائی ہے۔۔۔

اسلام  نے تو محرم کے روزے کے طریقہ میں مخالفت کا حکم دیا ہے۔۔

نیز بیجا تکلفات کئے جاتے ہیں مثلا تحفوں کا تبادلہ خواہی نہ خواہی طلباء اپنے والدین سے بضد ہوکر گفٹ کے لئے اصرار کرتے ہیں ۔۔

نیز گانا بجانا اختلاط نسواں ورجال۔۔

(جیسا کہ آج ہی بندہ نے خود مشاہدہ کیا ہے۔۔)

لہذا شریعت میں اسطرح کے جشن کی کوئی حیثت نہیں ہے۔۔

کیونکہ دین کے عظیم اصولوں میں سے ایک اصول،اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ مودّت ومحبت،اور کافروں سے اظہارِ بیزاری وبرأت ہے۔اس لیے کافروں کی عیدوں، تہواروں،اسی طرح بطورِعید منائے جانے والے دِنوں (ڈیز)، جن کی کوئی دینی اصل وحیثیت نہ ہو، بلکہ وہ کافروں کی اِیجاد، اور منکراتِ شرعیہ (غیر اللہ کی تعظیم وغیرہ) پر مشتمل ہوں،ان میں مسلمانوں کی شرکت بالکل جائز نہیں ہے،تاکہ اُن کی عیدوں، تہواروں اور غیر شرعی دنوں (ڈیز) سے بیزاری وبرأت کا اظہار ہوسکے، لیکن اگر کوئی دِن؛ قومی یا عالمی دِن ہو،منکراتِ شرعیہ سے خالی ہو،اور اس میں شرکت نہ کرنے سے مسلمانوں کی مصلحتیں فوت ہوتی ہوں، یا کوئی قانونی مجبوری ہو، اور اُس کے غیر شرعی ہونے پر دِل مطمئن ہو، توضرورۃً اس میں شرکت کی گنجائش ہوگی،

لہٰذا یومِ عاشقاں(Velentineday)،

یومِ اساتذہ (Teacher,day)

یومِ حقوقِ نسواں(Womenday)

یومِ گلاب (Rose,day)،

یومِ اطفال(Children,day) 

یومِ دوستاں(Friendship,day)،

یومِ سیاہ (Blackfriday)وغیرہ

میں شرکت درست نہیں ہوگی کیوں کہ ان میں شرکت نہ کرنے سے مسلمانوں کی کوئی مصلحت فوت نہیں ہوتی ہے،بلکہ شرکت کرنے پر دینی مفاسد اور خرابیاں لازم آتی ہیں جب کہ فقہ کاقاعدہ ہے

درأ المفاسد أولی من جلب المنافع -’’دینی خرابیوں سے بچنا تحصیلِ منافع سے اولیٰ ہے‘‘۔

اورعالمی یومِ صحت(Worldhealth day)

 یومِ انسدادِ منشیات Banishing day of liquor)

،یومِ تعلیم (Educational Day)

یومِ آزادی(Independence Day)

 یوم جمہوریہ(Republic,Day)

وغیرہ ان دنوں کے منانے میں پوری انسانیت کے لیے خیر اور نفعِ عام ہے  نہ ان میں غیر اللہ کی تعظیم اور معنیٔ عید موجود ہے  اورنہ یہ کافروں کی خصائص وعادات میں داخل ہیں اورنہ ہی یہ امورِ غیرشرعیہ پر مشتمل ہیں نیز ان میں شرکت کے بغیر مسلمانوں کے لیے کوئی چارۂ کار بھی نہیں کیوں کہ شرکت نہ کرنے کی صورت میں مسلمانوں کی مصلحتیں فوت ہوتی ہیں، اور کچھ قانونی مجبوریاں بھی ہیں، اس لیے ان ایام میں شرکت کی گنجائش ہوگی۔

۵؍ ستمبر کو پورے ہندوستان میں یومِ اساتذہ منایا گیا طلبہ وطالبات کی طرف سے اس مناسبت سے پروگرام پیش کیے گئے جن کا مقصد طلبہ میں اپنے اساتذہ کے لیے قدر واحترام کے جذبات کو پیدا کرنا ہوتا ہے لیکن یہ جذبات وقتی نہیں بلکہ دائمی ہونا چاہیے کیوں کہ اللہ تعالیٰ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ماں باپ کے بعد کسی بھی انسان کا سب سے بڑا محسن اس کا استاذ ہوتا ہے استاذ باپ کا درجہ رکھتا ہے معلوم ہواکہ استاذ کا مقام بہت اونچا ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ جو شخص جتنے اونچے مقام پر فائز ہوتا ہے، اسی نسبت سے اُس کی ذمہ داری بھی ہوتی ہے۔تو استاذ میں ہمیشہ اپنے شاگردوں کے لیے باپ کی سی محبت وشفقت، اور شاگردوں میں بیٹوں ، بیٹیوں کی طرح اطاعت و فرماں برداری ہونی چاہیے، تب تو اس طرح کے پروگرام اپنے مقصد میں کامیاب ہیں، لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس سلسلے میں دونوں جانب سے کوتاہی ہورہی ہے، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ تعلیم وتعلُّم کا یہ مقدس پیشہ آج تجارت وکاروبار بن چکا ہے، درس وتدریس اسکولوں اور کالجوں کی ملازمت بن کر رہ گئی ، کہ نہ استاذوں میں باپ کی سی شفقت ومحبت پائی جاتی ہے، اور نہ شاگردوں میں اولاد کی سی اطاعت ووفا شعاری۔

الغرض جو پیشہ تعلیمِ انسانیت کا تھا وہ خالص تجارت بن گیا۔۔

 ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ : {ولا ترکنوٓا إلی الذین ظلموا فتمسّکم النار}

(سورۃ ہود :۱۱۳)

ما في ’’ حاشیۃ القونوي علی تفسیر البیضاوي ‘‘ : قال ابن عباس : أي لا تمیلوا ، والرکون المحبۃ والمیل بالقلب ، وقال أبو العالیۃ : لا ترضوا بأعمالہم ، وقال عکرمۃ : لا تطیعوہم ؛ قال البیضاوي : لا تمیلوا إلیہم أدنی میل ، فإن الرکون ہو المیل الیسیرکالتزیي بزیہم وتعظیم ذکرہم ۔ (۱۰/۲۲۶ ، تفسیر المظہري :۴/۴۳۰)

ما في ’’ صحیح البخاري ‘‘ : ’’ إذا أمرتکم بشيء فافعلوہ ما استطعتم ، وإذا نہیتکم عن شيء فانتہوا۔ (۲/۱۰۸۲، کتاب الإیمان ، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ ، سنن ابن ماجہ: ص/۲ ، المقدمۃ ، باب اتباع سنۃ رسول اللّٰہ ﷺ)

ما في ’’ الأشباہ والنظائر لإبن نجیم  لأن اعتناء الشرع بالمنہیات أشد من اعتنائہ بالمأمورات ‘‘ ۔ (ص/۷۸) (قواعد الفقہ:ص/۸۱ ، قاعدۃ :۱۳۳)

ما في ’’ الأشباہ والنظائر لإبن نجیم ‘‘ : ’’ الضرورات تبیح المحظورات ‘‘ - ’’ ما أُبیح للضرورۃ یتقدر بقدرھا ‘‘ ۔ (۱/۳۰۷ ، ۳۰۸)

واللہ اعلم بالصواب

محمد طارق قاسمی دیوبند

 خادم التدریس جامعہ حسینیہ دیوبند

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے