کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام ایک حافظ ایک ہی رات میں بیس بیس رکعات کرکے ایک سے زیادہ جگہ تراویح پڑھاسکتے ہیں؟
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
🕋بإسمه تعالى 🕋
✒الجواب بعونه تعالى ✒
دو باتیں ہیں، اولا ایک رات میں دو جگہ یا کئی جگہ تراویح پڑھانا تو ایک رات میں تراویح کی نماز مکمل پڑھنے کے بعد دوسری جگہ تراویح کی امامت کرنا جائز نہیں؛
اس لئے کہ ایک رات میں ایک ہی مرتبہ تراویح کی نماز پڑھنا مسنون ہے،
اگر ایک مرتبہ تراویح پڑھنے کے بعد دوبارہ تراویح پڑھائے گا تو وہ نفل ہو جائے گی
اور جو لوگ اس کے پیچھے تراویح پڑھیں گے ان کی تراویح درست نہ ہو گی، اسے لوٹانا ضروری ہوگا،
ثانیاً دو جگہ تراویح پڑھنا تو ایک جگہ تراویح پڑھ لینے کے بعد دوسری جگہ نفل کی نیت سے شریک ہو سکتا ہے،اس میں کوئی حرج نہیں. ________________________________
📚والحجة علي ما قلنا 📚
إمام یصلي التراویح في مسجدین کل مسجد علی وجہ الکمال لا یجوز؛ لأنہ لا یتکرر، ولو اقتدی بالإمام في التراویح وہو قد صلی مرۃ لا بأس بہ،
ویکون ہذا اقتداء التطوع بمن یصلي السنۃ، ولو صلوا التراویح، ثم أرادوا أن یصلوا ثانیا یصلون فرادی،
(البحر الرائق، کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل) ج/٢/ص /١٢٠/م/زكريا دیوبند
ولا یصلي إمام واحد التراویح في مسجدین في کل مسجد علی الکمال، ولا لہ فعل ولا یحتسب التالي من التراویح،
وعلی القوم أن یعیدوا؛ لأن صلاۃ إمامہم نافلۃ، وصلاتہم سنۃ، والسنۃ أقوی فلم یصح الاقتداء؛لأن السنۃ لا تتکرر في وقت واحد.
(بدائع الصنائع، کتاب الصلاۃ فصل في التراویح)ج/١ /ص /٦٤٧/م /زكريا دیوبند،
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
إمام یصلي التراویح في مسجدین في کل مسجد علی الکمال لا یجوز،کذا في محیط السرخسي، والفتوی علی ذلک، کذا في المضمرات.
(ہندیۃ، الباب التاسع في النوافل)ج/١ /ص /١٧٦/م/زكريا
المستفاد فتاوى قاسمية ج/٨
والله اعلم بالصواب 🌴
بندہ حقير شمس تبريز قاسمی والمظاہری
رابطہ :7983145589
/ ٢٣/٨/١٤٤١
0 تبصرے