Ticker

6/recent/ticker-posts

ابتداء اسلام میں کونسا روزہ فرض تھا؟

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ شروع میں یعنی ابتداء اسلام میں صحابہ کرام کب سےکب تک روزہ رکھتے تھے اوربعدمیں کیا حکم ہوا تفصیل سےسمجھا دےمفتی صاحب؟

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

🕋بإسمه تعالي🕋

🌿 وعليكم السلام ورحمة وبركاته🌿

✒️الجواب بعونه تعالیٰ✒️

اولا تو یہ سمجھ لیں کہ روزہ نمازکی طرح حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام شریعتوں میں فرض تھا البتہ سب کی نوعیت الگ الگ تھی،

آپ علیہ الصلاۃ والسلام مشرکینِ مکہ کے ظلم وستم کے بعد بحکم الٰہی جب مدینہ منورہ میں تشریف لے گئے تو وہاں مہینے میں تین روزہ رکھتے تھے،

ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کو دیکھا کہ عاشورے کا روزہ رکھتے ہیں،فرمایا کہ یہ کیا ہے؟

عرض کی کہ یہ اچھا دن ہے، اس روز اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو اُن کے دشمن سے نجات دی تھی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس دن کا روزہ رکھا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری نسبت موسیٰ علیہ السلام سے میرا تعلق زیادہ ہے۔

لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا روزہ رکھا اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کو عاشورہ کے دن کے روزے کا حکم دیا

اور یہود کی مخالفت کی بناء پر دس محرم کے ساتھ نو محرم کے دن کو بھی روزہ رکھنے کے ارادے کا اظہار فرمایا،

چنانچہ شروع اسلام میں یہ عاشورا کا روزہ فرض تھا،پھر یہ فرضیت ختم ہو گئی ،صرف استحباب رہ گیا،

سن دو ہجری میں(كتب عليكم الصيام الخ.البقرة) کے ذریعے رمضان کے روزے کی فرضیت کا حکم نازل ہوا،لیکن اس وقت بھی مکمل طور پر فرض نہیں تھا بلکہ افضل تھا

اور ہر شخص کو روزہ نہ رکھنے کی صورت میں فدیہ دینے کا اختیار تھا،لیکن کچھ دنوں کے بعد یہ اختیار ختم ہو گیا اور مکمل طور پر رمضان کے روزے فرض ہو گئے ،فدیہ کی اجازت صرف شدید مریض کے لئے باقی رہ گیا،(ماخوذ معارف القرآن جلد ایک سورہ بقرہ)

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

📗 والحجة على ماقلنا📗

وقال الإمام أحمد: حدثنا أبو جعفر، حدثنا عبد الصمد بن حبيب الأزدي، عن أبيه حبيب بن عبد الله، عن شبل، عن أبي هريرة قال: «مر النبي صلى الله عليه وسلم بأناس من اليهود، وقد صاموا يوم عاشوراء

فقال: " ما هذا من الصوم؟ " فقالوا: هذا اليوم الذي نجى الله موسى وبني إسرائيل من الغرق، وغرق فيه فرعون، وهذا يوم استوت فيه السفينة على الجودي فصام نوح وموسى عليهما السلام شكرا لله عز وجل

فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " أنا أحق بموسى وأحق بصوم هذا اليوم ". وقال لأصحابه:من كان منكم أصبح صائما فليتم صومه،ومن كان أصاب من غداء أهله فليتم بقية يومه»وهذا الحديث له شاهد في الصحيح من وجه آخر، والمستغرب ذكر نوح أيضا. والله أعلم.

(البداية والنهاية) في قصة نوح عليه السلام

حدثنا أبو معمر، حدثنا عبد الوارث، حدثنا أيوب،حدثنا عبد الله بن سعيد بن جبير،عن أبيه، عن ابن عباس رضي الله عنهما،

قال: قدم النبي صلى الله عليه وسلم المدينة فرأى اليهود تصوم يوم عاشوراء، فقال: «ما هذا؟» ، قالوا: هذا يوم صالح هذا يوم نجى الله بني إسرائيل من عدوهم، فصامه موسى، قال: «فأنا أحق بموسى منكم»  فصامه، وأمر بصيامه.

(صحیح البخاری باب صيام يوم عاشوراء)ج/٣/ص/٤٤/م/دارطوق النجاة

حدثنا يحيى بن أيوب، حدثني إسماعيل بن أمية، أنه سمع أبا غطفان بن طريف المري، يقول: سمعت عبد الله بن عباس رضي الله عنهما، يقول:

حين صام رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم عاشوراء وأمر بصيامه قالوا: يا رسول الله إنه يوم تعظمه اليهود والنصارى فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:

«فإذا كان العام المقبل إن شاء الله صمنا اليوم التاسع» قال: فلم يأت العام المقبل، حتى توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم۔

(صحیح مسلمباب أي يوم يصام في عاشوراء)ج/٢/ص/٧٩٧/م/دار احياء التراث العربي

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

☘️والله أعلم بالصواب☘️

مفتي شمس تبريز قاسمي والمظاهري.

رابطہ:7983145589

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے