Ticker

6/recent/ticker-posts

رشتہ داروں کو زکوۃ اور صدقہ فطر کی رقم دینا جائز ہے؟

السلام علیکم:

اپنے رشتے داروں میں کس کس کو زکوۃ اور صدقہ فطر نہیں دے سکتے،برائے مہربانی جواب مرحمت فرمائیں؟

باسمہ تعالی

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

✒️ الجواب بعونه تعالي✒️

اولا تو یہ سمجھ لیں کہ زکوٰۃ اورصدقات فطر اپنے اصول یعنی والدین، دادا،دادی، نانا، نانی وغیرہ) فروع (بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی، نواسہ، نواسی، وغیرہ) اور شوہر یا بیوی کو نہیں دے سکتے،

اس کے علاوہ کوئی بھی رشتہ دار بھائی ، بہن،چچا، چچی پھوپھا اور پھوپھی،ماموں،مامی خالہ،خالو،چچا زاد بھائی بہن،خالہ زاد بھائی بہن وغیرہ مستحقِ زکوة ہوں،تو ان کو زکوٰۃ اور صدقہ فطر کی رقم دےسکتے ہیں،

بلکہ قریبی رشتہ داروں کو زکوۃ اور صدقہ فطر کی رقم کودینا افضل ہے اگر وہ لوگ زکوٰۃ اور صدقہ فطر کے مستحق ہوں،

مستدرک حاکم کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

کسی غریب کو دینے پر صرف ایک صدقہ کا ثواب ملتا ہے لیکن رشتہ دار کو دینے پر دوہرا اجر ملتا ہے،ایک صدقہ دوسرا صلہ رحمی کا،

مزید زکوۃ کی تفصیل کے لیے پڑھیں

📗 والحجة على ماقلنا📗

باب المصرف أي مصرف الزكاة والعشر،(هو فقير، وهو من له أدنى شيء) أي دون نصاب أو قدر نصاب غير نام مستغرق في الحاجة.

وهو مصرف أيضاً لصدقة الفطر والكفارة والنذر وغير ذلك من الصدقات الواجبة، كما في القهستاني'۔

(الشامي كتاب الزكاة باب المصرف)ج/٣/ص/٢٨٣/م/زكريا ديوبند.

ولا) إلى (من بينهما ولاد)

(قوله: وإلى من بينهما ولاد) أي بينه وبين المدفوع إليه؛ لأن منافع الأملاك بينهم متصلة فلا يتحقق التمليك على الكمال،هداية۔

والولاد بالكسر مصدر ولدت المرأة ولادةً وولاداً مغرب، أي أصله وإن علا كأبويه وأجداده وجداته من قبلهما،

وفرعه وإن سفل بفتح الفاء من باب طلب والضم خطأ؛ لأنه من السفالة وهي الخساسة مغرب، كأولاد الأولاد، وشمل الولاد بالنكاح والسفاح،

فلا يدفع إلى ولده من الزنا ولا من نفاه كما سيأتي، وكذا كل صدقة واجبة كالفطرة والنذر والكفارات،

وأما التطوع فيجوز بل هو أولى، كما في البدائع، وكذا يجوز خمس المعادن؛ لأن له حبسه لنفسه إذا لم تغنه الأربعة الأخماس، كما في البحر عن الإسبيجابي،

وقيد بالولاد؛ لجوازه لبقية الأقارب كالإخوة والأعمام والأخوال الفقراء بل هم أولى؛ لأنه صلة وصدقة.

وفي الظهيرية: ويبدأ في الصدقات بالأقارب، ثم الموالي ثم الجيران، ولو دفع زكاته إلى من نفقته واجبة عليه من الأقارب جاز إذا لم يحسبها من النفقة بحر وقدمناه موضحا أول الزكاة.

(الشامي كتاب الزكاة باب المصرف)ج/٣/ص/٢٩٣/م/زكريا ديوبند

🌹والله أعلم بالصواب🌹

بندہ حقیر شمس تبریز قاسمی والمظاہری،

رابطہ:7983145589

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے