Ticker

6/recent/ticker-posts

مسجد میں چوری کی بجلی استعمال کرنا اور اس میں نماز پڑھنا کیسا ہے؟

السلام وعلیکم و رحمۃاللہ کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مسئلے زایل کہ بارے میں:

ایک مسجد ہی جہاں سرکاری بجلی چوری کی جاتی ہیں میٹر میں کام کیا گیا ھے اور محانگر پلیکاکاجو نل ھے وہ بھی بنا اجازت کے لیا گیا ھے،

اب سوال یہ ہے کے جب تک مجھ کو پتہ نہیں تھا میں وہاں سے وضو طہارت کیا مگر اب مجھ كو پتہ چل گیا اب میرا وہاں وضو اور نماز جائز ہوگا ؟

🕋 باسمہ تعالی🕋

🌿 وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته🌿

✒️ الجواب بعونه تعالي✒️

اولا تو یہ سمجھ لیں اس طرح کی مساجد میں نماز پڑھنا جہاں بجلی کی چوری استعمال کی جاتی ہو جائز ہے اور نماز درست ہے،اور جان بوجھ کر اس طرح کے پانی سے وضو کرنا ناجائز اور ممنوع ہے

دوسری بات مسجد میں چوری کی بجلی کا استعمال کرنا یا موٹر،پنکھاوغیرہ استعمال کرنا سب ناجائز اور حرام ہے،مسجد کی ذمہ داروں اور کمیٹی کوچاہیے کہ اس کو ختم کروا کر قانونی طور پر بجلی کا استعمال کریں،

البتہ جو نمازیں اس بجلی کی روشنی میں یا اس پانی سے وضو کر کےپڑھی گئی ہیں،وہ ہوگئی ہیں، ان کو دہرانے کی ضرورت نہیں۔ '' امداد الفتاویٰ'' میں ہے:

'' مسجد میں چوری کی بجلی کا استعمال بالکل ناجائز ہے؛ تاہم اُس کی روشنی اور پنکھے کی ہوا سے نماز میں خرابی نہیں آتی''۔ (امداد الفتاویٰ ۴/۱۴۷)

نیز فتاوی قاسمیہ میں ہے: مسجد خالص عبادت کا مقام ہے،اس میں چوری کی چیز استعمال کرنا جائز نہیں ہے،

البتہ اب تک جو نماز اس پانی سے وضو کر کے پڑھی گئیں وہ نمازیں صحیح اور جائز ہو جائیں گی،اور جان بوجھ کر ایسے پانی کو استعمال کرنا ناجائز اور ممنوع ہے،

اور اب تک جو بجلی چوری کی استعمال کی گئی ہے اس کا بل تمام نمازیوں کو ادا کرنا لازم ہے،

📘 والحجة على ماقلنا📘

قال الحافظ عماد الدین إسماعیل بن کثیر القرشي: قال ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما: أمرہم بالإنفاق من أطیب المال وأجودہ وأنفَسہ،

ونہاہم عن التصدق برذالۃ المال أو دنیئتہ، وہو خبیثہ؛ فإن اللّٰہ لا یقبل إلا طیبًا۔ (تفسیر ابن کثیر ۱؍۳۲۰ البقرۃ: ۲۶۷ سہیل أکیڈمي لاہور)

کذا فی السنن الکبری :

عن شرحبيل مولى الأنصار , عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: "من اشترى سرقةً وهو يعلم أنها سرقة فقد أشرك في عارها وإثمها".

( ج : 5، ص : 548، کتاب البیوع، باب كراهية مبايعة من أكثر ماله من الربا أو ثمن المحرم، ط: دار الكتب العلمية)

والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه، وإن كان مالا مختلطا مجتمعا من الحرام ولا يعلم أربابه ولا شيئا منه بعينه حل له حكما، والأحسن ديانة التنزه عنه

(الشامی کتاب البیوع باب بیع الفاسد)ج/٧/ص/٣٠٢/م/زکریا دیوبند

ويردونها علي اربابها إن عرفوهم، وإلا تصدقوا، لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق، إذا تعذر الرد على صاحبه، 

(الشامي كتاب الحظر والإباحة) ج/٩/ص/٥٥٣/

🌴والله اعلم بالصواب 🌴

بنده حقير محمد شمس تبريز قاسمی والمظاہری

رابطہ :7983145589

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے