Ticker

6/recent/ticker-posts

رمضان میں نماز تہجد اور صلاۃ التسبیح کی نماز باجماعت پڑھنا کیسا ہے؟

رمضان میں نماز تہجد اور صلاۃ التسبیح کی نماز باجماعت پڑھنا کیسا ہے؟
،السلام وعلیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ امید کرتا ہوں خیریت سے ہوں گے

حضرت یہ معلوم کرنا تھا کہ جس طرح سے حرمین شریفین میں تہجد کی نماز باجماعت ہوتی ہے

اس طرح ہم لوگ باجماعت نماز پڑھ سکتے ہیں رمضان المبارک میں؟

باسمه تعالي

وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته

✒️الجواب بعونه تعالي✒️

اولا تو یہ سمجھ لیں کہ احناف کے یہاں تراویح،کسوف اور صلاۃ الاستسقاء کے علاوہ کوئی بھی نفل نماز باضابطہ تداعی کے ساتھ باجماعت ادا کرنا مکروہ تحریمی ہے،

اور مکروہ تحریمی اقرب الی الحرام (حرام کے بہت قریب) ہوتا ہے خواہ رمضان میں ہو یا غیر رمضان میں،

اس لئے احناف کے یہاں رمضان یا غیر رمضان میں نماز تہجد یا صلاۃ التسبیح کی نماز باضابطہ طور پر تداعی کے ساتھ پڑھنا مکروہ تحریمی ہوگا،

تداعی کا مطلب: تداعی کا مطلب تین سے زائد افراد کا ہونا خواہ وہ افراد خود سے شریک ہو جائیں یا بلانے پر شریک ہوں،

بہر دو صورت تین سے زائد مکروہ تحریمی ہے

نیز علماء دیوبند کے فتاوی بھی اسی کے مطابق ہیں،چندملاحظہ کریں:

چنانچہ فتاوی دارالعلوم دیوبند جلد چہارم کتاب الصلاۃ کے ایک سوال کے جواب میں ہے:

نماز تہجد کا جماعت سے ادا کرنا مکروہ ہے،

اور حضرت گنگوھی علیہ الرحمہ جماعت تہجد کے جواز کو صحیح نہیں سمجھتے تھے،حضرت مولانا اس سے منع فرماتے تھے،

(صرف شیخ الاسلام حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ اسے جائز کہتے تھے،مگر صرف رمضان میں،سال کے دوسرے حصوں میں نہیں،

اور آپ کا رمضان میں اسی پر عمل تھا)(فتاوی دارالعلوم دیوبند جلد چہارم)ص/٢٢٨/م/دار الاشاعت کراچی،

نیز فتاوی رشیدیہ میں حضرت گنگوھی علیہ الرحمہ نے لکھا ہے:

نوافل کی نماز تہجد ہو یا غیر تہجد

سوائے تراویح و کسوف و استسقاء کے اگر چار مقتدی ہوں تو حنفیہ کے نزدیک مکروہ تحریمی ہے،

خواہ خود جمع ہوں،خواہ بطلب آویں،تین میں اختلاف ہے اور دو میں کراہت نہیں،

(فتاوی رشیدیہ)کتاب الصلاۃ/ص/٣٦١/م/دار الاشاعت کراچی،

نیز فتاوی قاسمیہ میں ہے کہ:

آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پوری زندگی میں صلاۃ کسوف،صلاۃ استسقاء اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے سے صلاۃ التراویح کے علاوہ

کسی بھی نفل نماز کا تین سے زائد مقتدیوں کے ساتھ باجماعت پڑھنا ثابت نہیں ہے،

خلاصہ یہ ہے کہ نوافل نماز باجماعت ادا کرنا (تراویح،کسوف،استسقاء کے علاوہ) جس میں تین سے زائد افراد ہوں مکروہ تحریمی ہے

رمضان اور غیر رمضان دونوں میں،

اور بجز چند کے اکثر فقہاء اور علماء دیوبند کے یہاں بھی مکروہ تحریمی ہے،

حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی مکروہ تحریمی کہا ہے،

حضرت گنگوھی علیہ الرحمہ نے بھی مکروہ تحریمی لکھا ہے،

اور مفتی اعظم دار العلوم دیوبند مفتی عزیز الرحمن صاحب علیہ الرحمہ نے بھی مکروہ تحریمی لکھا ہے،

حضرت مفتی شفیع صاحب اور ان کے صاحبزادے حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب مدظلہ العالی نے بھی مکروہ تحریمی لکھا ہے،

لہذا تہجد اور صلاۃ التسبیح یا کوئی بھی نفل نماز باجماعت پڑھنا جس میں تین سے زائد مقتدی ہوں مشروع نہیں ہے،

اکثر فقہاء کے یہاں مکروہ تحریمی ہے،

اس لئے اس سے گریز کر کےاپنے آپ کو دور رکھنا ضروری ہے،

(فتاوی قاسمیہ ج/٨/ص/٢٣٨/٢٣٩/)

نوٹ📙:حرم شریف میں نماز تہجد باجماعت ادا کی جاتی ہے کیونکہ وہ لوگ امام احمد بن حنبل کی اقتداء کرتے ہیں،

اور ان کے یہاں نوافل نماز باجماعت درست ہے خواہ کتنے ہی افراد ہوں

📗 والحجة على ماقلنا📗

ولا يصلي الوتر و) لا (التطوع بجماعة خارج رمضان) أي يكره ذلك على سبيل التداعي،

بأن يقتدي أربعة بواحد كما في الدرر،ولا خلاف في صحة الاقتداء إذ لا مانع نهر.

قوله على سبيل التداعي) هو أن يدعو بعضهم بعضا كما في المغرب، وفسره الواني بالكثرة وهو لازم معناه.

(قوله أربعة بواحد) أما اقتداء واحد بواحد أو اثنين بواحد فلا يكره، وثلاثة بواحد فيه خلاف بحر عن الكافی،

وهل يحصل بهذا الاقتداء فضيلة الجماعة؟ ظاهر ما قدمناه من أن الجماعة في التطوع ليست بسنة يفيد عدمه تأمل.

بقي لو اقتدى به واحد أو اثنان ثم جاءت جماعة اقتدوا به. قال الرحمتي: ينبغي أن تكون الكراهة على المتأخرين. اهـ.

قلت: وهذا كله لو كان الكل متنفلين، أما لو اقتدى متنفلون بمفترض فلا كراهة كما نذكره في الباب الآتي.

(الشامي كتاب الصلاة باب الوتر والنوافل)ج/٢/ص/٥٠٠/م/زكريا ديوبند

(٢):والجماعة في النفل في غير التراويح مكروهة،فالإحتياط تركها في الوتر خارج رمضان،وعن شمس الأئمة أن هذا فيما كان على سبيل التداعي،

أما لو اقتدي واحد بواحد،او اثنان بواحد لا يكره،واذا اقتدي ثلاثة بواحد اختلف فيه،وان اقتدي اربعة بواحد كره اتفاقا،

قال الطحطاوي:اختلف فيه،ولأصح عدم الكراهة،

(حاشية الطحطاوي،كتاب الصلاة باب الوتر واحكامه)ص/٣٨٦/م/دار الكتاب ديوبند

🌿والله أعلم بالصواب🌿

بنده حقير مفتي شمس تبريز قاسمي والمظاهري

رابطہ:7983145589

۲۲/رمضان المبارک/یوم الاحد/١٤٤٣/ھجری

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے