Ticker

6/recent/ticker-posts

نماز تراویح کے رکوع اور سجدے میں قرآن یاد کرنا نیز قرآنی آیات کا پڑھنا

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ:
حضرت ایک شخص ہے جو تراویح پڑھا رہا ہے لیکن وہ سجدے میں جاکر
سجدے کی تسبیح پڑھنے کے بعد قرآن کی وہ آیت جہاں سے وہ اگلی رکعت میں پڑھے گا اس آیت کو دل ہی دل میں اسکو پڑھتا رہتا ہے
یا کم از کم اس آیت کو ایک مرتبہ دہراہی لیتاہے اور ایسا بھی نہیں ہے کہ سجدہ میں وقت زیادہ لیتا ہے
بلکہ تین یا پانچ تسبیح کے بقدر ٹھرتا ہے
اور کبھی کبھی اسکے دھیان میں تسبیح نہیں پڑھتا ہے مہربانی فرما کر اسکی پوری تفصیل بیان کردیں؟

➖➖➖➖➖➖➖➖➖

🕋 باسمہ تعالی🕋

🌿 وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ🌿

✒️ الجواب بعونه تعالي✒️

اولا تو یہ سمجھ لیں کہ نماز کے اندر رکوع اور سجدے میں قرآنی آیات کا لوٹانا یا

یاد کرنا یا بطورِ تلاوت پڑھنا شرعاً مکروہ ہے،

خواہ نماز تراویح ہو یا فرض نماز ہو،نماز کے رکوع اور سجدے میں صرف ادعیہ ماثورہ پڑھیں جو شریعت میں منقول ہیں،

البتہ وہ آیات جو بطور دعا قرآن میں موجود ہیں رکوع اور سجدے میں میں بطورِ دعا پڑھ سکتے ہیں جیسے(ربنا آتنا في الدنيا حسنة الخ)

خلاصہ نماز کے اندر رکوع اور سجدے میں وہ آیات جو بطور دعا منقول ہیں صرف بطور دعا پڑھ سکتے ہیں،بطور تلاوت یا یاد کرنے کی غرض سے نہیں،

نوافل اور فرائض دونوں میں پڑھ سکتے ہیں بشرطیکہ تنہا اداکر رہے ہوں،

نوٹ اگر دل ہی دل میں پڑھے زبان سے ادا نہ کرے تو کراہت نہیں ہے تاہم ایسی عادت پسندیدہ نہیں ہے،

نیزرکوع اور سجدہ میں تسبیح پڑھنا سنت ہے، بلا عذر چھوڑ دینے سے نماز مکروہ ہوتی ہے،

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

📗 والحجة على ماقلنا📗

(بالأدعية المذكورة في القرآن والسنة. لا بما يشبه كلام الناس)

 وتکرہ قرأۃ القرآن في الرکوع والسجود والتشہد بإجماع الأئمۃ الأربعۃ لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام:نہیت أن أقرأ القرآن راکعاً أو ساجداً.رواہ مسلم 

(الشامي كتاب الصلاة باب صفة الصلاة)/ج/٢/ص/٢٣٧/م/زكريا ديوبند

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

وكذا لايأتي في ركوعه وسجوده بغير التسبيح (على المذهب)، وما ورد محمول على النفل.

(قوله: وما ورد إلخ) فمن الوارد في الركوع والسجود ما في صحيح مسلم: «أنه صلى الله عليه وسلم كان إذا ركع

قال: اللّٰهم لك ركعت، وبك آمنت،ولك أسلمت، خشع لك سمعي وبصري ومخي وعظمي وعصبي،

وإذا سجد قال: اللّٰهم لك سجدت وبك آمنت ولك أسلمت، سجد وجهي للذي خلقه وصوره وشق سمعه وبصره، تبارك الله أحسن الخالقين».

والوارد في الرفع من الركوع أنه كان يزيد: «ملء السماوات والأرض وملء ما شئت من شيء بعد أهل الثناء والمجد أحق ما قال العبد،

وكلنا لك عبد لا مانع لما أعطيت ولا معطي لما منعت، ولاينفع ذا الجد منك الجد».رواه مسلم وأبو داود وغيرهما.

وبين السجدتين:«اللّٰهم اغفر لي وارحمني وعافني واهدني وارزقني». رواه أبو داود،وحسن النووي وصححه الحاكم، كذا في الحلية

(قوله:محمول على النفل) أي تهجداً أو غيره، خزائن.وكتب في هامشه: فيه رد على الزيلعي حيث خصه بالتهجد. اهـ.

ثم الحمل المذكور صرح به المشايخ في الوارد في الركوع والسجود،

وصرح به في الحلية في الوارد في القومة والجلسة.وقال:علي أنه إن ثبت في المكتوبة فليكن حالة الانفراد الخ

(الشامي كتاب الصلاة باب صفة الصلاة)ج/٢/ص/٢١٣/م/زكريا ديوبند

➖➖➖➖➖➖➖➖

ولو قرأ القرآن في ركوعه أو في سجوده أو في قيامه لا سهو عليه؛ لأنه ثناء وهذه الأركان مواضع الثناء(بدايع الصنائع: 1/ 167)

➖➖➖➖➖➖➖

🌹والله أعلم بالصواب🌹

بنده حقير مفتي شمس تبريز قاسمي والمظاهري

رابطہ:7983145589

ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے