Ticker

6/recent/ticker-posts

سعودی میں مقیم شخص کا صدقہ فطر ہندوستان یا پاکستان میں کیسے ادا کریں/Arab ya dusre country me rahne wale ka sadqae fitar kaise ada karen?

سعودی میں مقیم شخص کا صدقہ فطر ہندوستان یا پاکستان میں کیسے ادا کریں؟

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

حضرت میرا بھائی دبئی میں ہے اور میں اس کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا چاہتی ہوں تو صدقہ فطر پاکستان کی قیمت سے دیں یا پھر دبئی کی قیمت سے

مثلاً اگر میں آپ کا صدقہ فطر پاکستان میں دوں تو کیسے؟

اردو ترجمہ

باسمه تعالي

وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته

✒️ الجواب بعونه تعالي✒️

اولا تو یہ سمجھ لیں کہ صدقہ فطر گندم کے حساب سے پونے دو کلو گندم ہے

اور کھجور،جو اور کشمش کے حساب سے ساڑھے تین کلو صدقہ فطر ہے خواہ کسی ملک میں ادا کیا جائے؛

لیکن اگر قیمت کے اعتبار سے ادا کرنی ہے تو جہاں ادائیگی کرنے والا موجود ہے وہاں کی قیمت کے اعتبار سے ادا کیا جائے گا

مثلاً ہندوستان یا پاکستان کا باشی سعودی میں ہے تو اس شخص کے لیے سعودی میں اپنا اور اپنے نابالغ بچوں کا صدقہ فطر سعودی کے اعتبار سے ادا کرنا ضروری ہوگا خواہ بچے ہندوستان میں ہوں؛

کیوں کہ فتویٰ اسی بات پر ہے کہ ادا کرنے والے کا اعتبار کیا جائے گا جہاں وہ ہے وہاں کے اعتبار سے ادا کرنا لازم ہے،

نیز اگر نیز اگر وہ شخص اپنا صدقہ فطر ہندوستان یا پاکستان میں ادا کرنا چاہے

یا گھر والے اس کی طرف سے ادا کرنا چاہے تو بھی سعودی کی قیمت کا ہی اعتبار کیا جائے گا،

ہندوستان یا پاکستان کا اعتبار کرنا درست نہیں ہوگا کیونکہ وہ سعودی میں مقیم ہے

دوسری بات اگر سعودی میں مقیم شخص اپنے بالغ بچوں،بچیوں اور بیوی کا صدقہ فطر ادا کرنا چاہے جو ہندوستان یا پاکستان میں رہائش پذیر ہیں

تو اصل یہ ہے کہ ہندوستان پاکستان کے اعتبار سے ہی ادا کیا جائے؛

کیونکہ بالغ بچوں اور بیوی پر ہندوستان میں واجب ہوا ہے

لیکن اگر وسعت ہے تو پھر فقراء کا نفع دیکھ کر جہاں کی قیمت زیادہ ہو وہاں کے اعتبار سے ادا کرنا افضل ہے،

صورت مذکورہ میں آپ کے بھائی کا صدقہ فطر دبئی کی قیمت کے اعتبار سے ادا کرنا ضروری ہے

📙نوٹ: فتاوی قاسمیہ جلد گیارہ صفحہ نمبر چھ سو سولہ پر موجود فتوے سے حضرت مفتی شبیر صاحب رجوع کر چکے ہوئے ہیں اس لیے اس کی وجہ سے اعتراض نہ کیا جائے

📗 والحجة على ماقلنا📗

وفي الفطرة مكان المؤدي عند محمد، وهو الأصح،

قوله:(مكان المؤدي) أي لا مكان الرأس الذي يؤدي عنه (قوله: وهو الأصح)

بل صرح في النهاية والعناية بأنه ظاهر الرواية كما في الشرنبلالية وهو المذهب كما في البحر فكان أولى مما في الفتح من تصحيح قولهما باعتبار مكان المؤدى عنه.

قال الرحمتي:وقال في المنح في آخر باب صدقة الفطر:

الأفضل أن يؤدي عن عبيده وأولاده وحشمه حيث هم عند أبي يوسف وعليه الفتوى وعند محمد حيث هو اهـ تأمل.

قلت: لكن في التتارخانية يؤدى عنهم حيث هو وعليه الفتوى وهو قول محمد ومثله قول أبي حنيفة وهو الصحيح.

(الشامي كتاب الزكاة باب المصرف قبيل باب صدقة الفطر)ج/٣/ص/٣٠٧/م/زكريا ديوبند

(٢)

وفي صدقة الفطر يعتبر مكانه لا مكان أولاده الصغار وعبيده في الصحيح كذا في التبيين وعليه الفتوي كذا في المضمرات،

(الفتاوي الهندية كتاب الزكاة باب المصارف)ج/١/ص/٢٠٩/م/زكريا ديوبند

☘️والله أعلم بالصواب☘️

بنده حقير مفتي شمس تبريز قاسمي والمظاهري

رابطہ:7983145589

۲۹رمضان المبارک/يوم الأحد/١٤٤٣/هجري

ایک تبصرہ شائع کریں

2 تبصرے

  1. دوسرے قول کی بھی بھی گنجائش دینی چاہئیے

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. نہیں اس قول کی گنجائش نہیں دی گئی ہے فتاوی قاسمیہ میں دوسرے قول کے مطابق ہی لکھا ہوا ہے لیکن دیگر تمام فتاوی میں جواب میں مذکورہ قول پر ہی فتویٰ ہے نیز کتاب المسائل میں حضرت مفتی سلمان صاحب نے بھی صاف واضح لفظوں میں لکھا ہے کہ سعودی کے اعتبار سے ہی ادا کیا جائے گا،چاہے ہندوستان میں ادا کرے یا سعودی
      مزید بات کے لیے آپ رابطہ کر سکتے ہیں

      حذف کریں