Ticker

6/recent/ticker-posts

غیر مسلم کی دعوت افطار قبول کرنا کیسا ہے؟Gair muslim ki dawat e iftar qubool karna kaisa h

غیر مسلم کی دعوت افطار قبول کرنا کیسا ہے؟

حضرات علماء کرام السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ایک مسئلہ معلوم کرنا ہے مسئلہ یہ ہےکہ
اگر کچھ ہمارے ہندو بھائیوں نے مل کر کے روزے داروں کے لئے لیے افطاری کا انتظام کریں تو کیا اس سے روزہ افطار کرنا جائز ہے یا نہیں

باسمہ تعالی

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

✒️الجواب بعونه تعالي✒️

جی ہاں غیر مسلموں کی طرف سے انتظام کئے ہوئے افطار کی چیزوں سے افطار کرنا یا دعوت افطار قبول کرنا جائز ہے دو شرطوں کے ساتھ،

پہلی شرط تو یہ ہے کہ وہ چیزیں بتوں کے چڑھاوے کا نہ ہو یا حرام چیزوں کی ملاوٹ نہ ہو جیسے شراب

دوسری شرط یہ ہے کہ اس کی آمدنی حلال ہو اس کے دھرم کے مطابق،

جیسے شراب،خنزیر اور سود ان کے یہاں حلال ہے،

لہذا اگر وہ اس طرح کے پیسوں سے انتظام کر کے لائے تو بھی کھانا جائز ہے

لیکن چوری یا لوٹ مار کے پیسوں سے نہ ہو؛ کیونکہ چوری اور لوٹ مار ان کے یہاں بھی حلال نہیں ہے،

فتاوی قاسمیہ میں ہے:غیر مسلم کے یہاں ان کے عقیدہ اور دھرم کے اعتبار سے شراب،رشوت،سود وغیرہ کا پیسہ حلال ہے،

اسلامی شریعت کے پابند نہیں ہوتے،

لہذا غیر مسلم کی ملکیت میں جو مال ہے وہ اگر غیر مسلم مسلمان کو تحفہ میں پیسے کی شکل میں دیدے

یا کھانے کی شکل میں دیدے تو حلال اور جائز ہے،

لہذا اگر غیر مسلم اپنے پیسے سے مسلمان کو افطار کرائے تو جائز ہے،

لیکن بہتر یہی ہے کہ افطار کرنے کے لئے غیر مسلم کے گھر نہ جایا جائے،

بلکہ افطار کا سامان انتظام کر کے وہ غیر مسلم مسلمان کے گھر بھیج دے،

(فتاوی قاسمیہ ج/١١/ص/٤٧٢)

نیز کتاب النوازل میں ہے:جن پاک اور حلال چیزوں کا کھانا حلال اور جائز ہے،ان تمام چیزوں سے روزہ افطار کرنا بھی جائز ہے،

لہذا اگر کوئی غیر مسلم پاک اور حلال چیز سے افطار کرائے،تو اس سے افطار کرنا فی نفسہ جائز اور درست ہے،

تاہم آج کل زیادہ تر ایسے پروگرام سیاسی مقاصد کے لئے کئے جاتے ہیں،

اس لئے ان میں شرکت سے احتیاط کرنی چاہیے،

(کتاب النوازل ج/٦/ص/٣٤٩)

خلاصہ یہ ہے کہ غیر مسلم کی دعوت افطار قبول کرنا یا اس کے بھیجے ہوئے چیزوں سے افطار کرنا جائز ہے بشرطیکہ کھانا حلال ہو اور اس کی آمدنی اس کے دھرم کے مطابق حلال ہو

نوٹ: موجودہ دور میں احوال بلکل مختلف ہیں اس لیے کسی طرح کی دعوت غور و فکر کے بعد قبول کریں یا احتیاطی پہلو اختیار کریں

مزید پڑھیں:کیا زکوٰۃ کی رقم غیر مسلم کو دینا جائز ہے؟

📗 والحجة على ماقلنا📗

أن بلالا قال لعمر بن الخطاب رضي الله عنه إن عمالك ياخذون الخمر والخنازير في الخراج فقال لا تاخذوها منهم ولكن ولو هم بيعها وخذوا انتم من الثمن

(إعلاء السنن كتاب البيوع باب حرمة بيع الخمر)ج/١٤/ص/١٣٤/م/دار الكتب العلميةبيروت لبنان بحواله فتاوى قاسمية

فهذا عمر قد أجاز لأهل الذمة بيع الخمر والخنازير واجاز للمسلمين أخذ اثمانها في الجزية والخراج وذالك بمحضر من الصحابة ولم ينكر عليه منكر،

(إعلاء السنن)ج/١٤/ص/١٣٥/م/دار الكتب العلميةبيروت لبنان

المجوس او النصراني إذا دعا رجلا إلي طعامه تكره الإجابة، وإن قال إشتريت اللحم من السوق، فإن كان الداعي نصرانيا فلا باس،

لا بأس بأن يضيف كافرا لقرابة أو لحاجة،ولا بأس بالذهاب إلي ضيافة اهل الذمة،

(الفتاوي الهندية)ج/٥/ص/٣٤٧/بحواله كتاب النوازل

🌹والله أعلم بالصواب🌹

بنده حقير مفتي شمس تبريز قاسمي والمظاهري

رابطہ 7983145589

٢٦/رمضان المبارک/یوم الخمیس/١٤٤٣/ھجری

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے