Ticker

6/recent/ticker-posts

اگر امام عیدین کی نماز میں زائد تکبیرات کہنا بھول جائے تو کیا سجدہ سہو لازم ہوگا؟

گر امام عیدین کی نماز میں زائد تکبیرات کہنا بھول جائے تو کیا سجدہ سہو لازم ہوگا؟

السلام عليكم،
حضرت اگر امام عید کی نماز میں زائد تکبیر کہنا بھول جائے

تو کیا حکم ہے سجدہ سہو کرنے سے نماز درست ہو جائے گی یا لوٹانا پڑے گا

باسمه تعالي

🌿 وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته🌿

✒️ الجواب بعونه تعالي✒️

اولا تو یہ سمجھ لیں کہ عیدین کی نماز میں چھ تکبیرات زائد ہیں،

پہلی رکعت میں تکبیر تحریمہ اور ثناء کے بعد تین تکبیریں ہیں اور دوسری رکعت میں قرات کے بعد رکوع سے پہلے (رکوع کی تکبیر کے علاوہ) تین تکبیریں ہیں،

اگر بھول سے یہ تکبیریں پہلی رکعت میں میں چھوٹ جائیں تو رکوع میں جانے سے پہلے کہہ لیں

یا رکوع کے بعد کھڑے ہونے کی حالت میں کہہ لیں لیکن اگر پہلی رکعت کا سجدہ کر لیا ہے،

تو اب تکبیرات لوٹانے کی گنجائش نہیں ہے،

اسی طرح دوسری رکعت میں یاد آجائے تو تکبیرات لوٹانے کی گنجائش نہیں ہے

بلکہ اب سجدہ سہو کر کے نماز پوری کرے گا،

ساری کتب فقہ میں موجود ہے کہ اس صورت میں سجدہ سہو لازم ہوگا؛

لیکن فقہاء متاخرین نے یہ بات بھی واضح کر دی ہے کہ جمع اور عیدین میں مجمع کثیر ہونے کی وجہ سے سجدہ سہو کرنے میں لوگوں کی نماز خراب ہونے کا اندیشہ ہے،

اس لئے سجدہ سہو کے بغیر عیدین اور جمعہ کی نماز درست ہو جائے گی

اور سجدہ سہو نہ کرنے کو اولی اور بہتر بھی لکھا ہے،

مگر یہ بات بھی یاد رہے کہ اگر مجمع کثیر نہ ہو تو امام کو سجدہ سہو کر لینا چاہیے،

(المستفاد فتاوی قاسمیہ جلد/٩)

مزید پڑھیں: اگر عید کی نماز میں مقتدی دوسری رکعت میں شریک ہوں

📗 والحجة على ماقلنا📗

(والسهو في صلاة العيد والجمعة والمكتوبة والتطوع سواء) والمختار عند المتأخرين عدمه في الأوليين لدفع الفتنة كما في جمعة البحر،

(قوله عدمه في الأوليين) الظاهر أن الجمع الكثير فيما سواهما كذلك كما بحثه بعضهم ط وكذا بحثه الرحمتي،

وقال خصوصا في زماننا. وفي جمعة حاشية أبي السعود عن العزمية أنه ليس المراد عدم جوازه، بل الأولى تركه لئلا يقع الناس في فتنة.اهـ.

(الشامي كتاب الصلاة باب سجود السهو)ج/٢/ص/٥٦٠/م/زكريا ديوبند

وترك قراءة الفاتحة، أوالقنوت، أوالتشهد، أوتكبيرات العيدين؛لأنها واجبات فإنه عليه السلام،واظب عليها من غير تركها مرة،وهي أمارة الوجوب،

ولأنها تضاف إلي جميع الصلاة،فدل أنها من خصائصها وذالك بالوجوب.وكل ذالك واجب وفيها سجدة السهو هو الصحيح،

(هداية كتاب الصلاة باب سجود السهو)ج/١/ص/١٥٧/١٥٨/م/أشرفيه ديوبند

العاشر تكبيرات العيدين،قال في البدائع:إذا تركها أو نقص منها أو زاد عليها أو أتي بها في غير موضعها،فإنه يجب عليه السجود،

(البحر الرائق كتاب الصلاة باب سجود السهو)ج/٢/ص/١٧٠/م/زكريا ديوبند

والله أعلم بالصواب

بنده حقير مفتي شمس تبريز قاسمي والمظاهري

رابطہ:7983145589

۳۰رمضان المبارک/يوم الاثنين/١٤٤٣هجري

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے