Ticker

6/recent/ticker-posts

سید کو زکوٰۃ دینا اور سید کے لئے زکوٰۃ لینا کیوں جائز نہیں ہے؟____Sayyed ke liye zakat lena jayez kyon nhi hai?

سید کو زکوٰۃ دینا اور سید کے لئے زکوٰۃ لینا کیوں جائز نہیں ہے؟

Assalamualaikum۔MuftiSaab.KhariyatMufti Saab. AEK masla hai Mufti Saab,Syed ke liye zakat ku nahi dena Aur Syed ku nahi lena Aur zare aqal se samjana?

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته ،

خیریت سے ہیں مفتی صاحب ایک مسئلہ ہے ،

سید کے لئے زکوٰۃ کیوں نہیں دینا اور سید کو نہیں لینا ؟

🕋باسمه تعالي 🕋

وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته

✒️ الجواب بعونه تعالي ✒️

یہ بات تو معلوم ہے کہ سید کے لئے زکوٰۃ لینا جائز نہیں ہے اور نہ سید کو زکوٰۃ دینا جائز ہے،اگر کسی نے سید کو زکوٰۃ دے دی تو زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی،دوبارہ زکوۃ دینا پڑے گا،

اب رہا مسئلہ کہ کہ سید کے لئے یہ حکم کیوں ہے تو اس تعلق سے آپ یہ سمجھ لیں کہ زکوٰۃ کا مال یہ ایک طرح کا میل کچیل ہوتا ہے،پاکیزہ مال نہیں سمجھا جاتا ہے اور آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا قبیلہ اور خاندان سب سے اشرف اور معزز ہے اور معززین کے لئے اس طرح زکوٰۃ اور صدقات واجبہ کا مال (جو اصل میں میل کچیل ہے) استعمال کرنا اہانت اور تذلیل ہے،

خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مختلف احادیث میں ارشاد ہے:’یہ صدقات  (زکات اور صدقاتِ واجبہ ) لوگوں کے مالوں کا میل کچیل ہیں، ان کے ذریعہ لوگوں کے نفوس اور اَموال پاک ہوتے ہیں اور بلاشبہ یہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے لیے اور آلِ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لیے حلال نہیں ہے‘‘

سید کو زکوٰۃ لینے اور دینے سے منع کرنے کی وجہ یہ بھی ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سید کے لئے زکوٰۃ کو جائز قرار دیتے تو (نعوذ باللہ) لوگ بدظنی میں ملوث ہو جاتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خاندان والوں کے لیے زکوٰۃ میں حصہ متعین کر دیا ہے،تو اس بدظنی کے سد باب کے لئے آپ نے بلکلیہ سید کو زکوٰۃ دینے اور لینے سے منع کر دیا لیکن اصل وجہ وہی ہے جو پہلے تحریر کی گئی ہے،

نیز دیگر فتاوی میں بھی یہی ہے کہ سید کے لئے زکوٰۃ لینا اور دینا دونوں ہی ناجائز ہے،

بعض علماء نے جائز قرار دیا ہے لیکن ان کے قول پر فتویٰ نہیں ہے،اصل یہی ہے کہ جائز نہیں ہے،کیوں صریح احادیث موجود ہیں جن میں واضح لفظوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے

باقی زکوٰۃ اور صدقات واجبہ کے علاوہ دیگر نفلی صدقات وغیرہ لینا جائز ہے

📗 والحجة على ماقلنا 📗

حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَاءَ الضُّبَعِيُّ ، حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نَوْفَلِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، حَدَّثَهُ، أَنَّ عَبْدَ الْمُطَّلِبِ بْنَ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ ، حَدَّثَهُ،  ثُمَّ قَالَ : " إِنَّ الصَّدَقَةَ لَا تَنْبَغِي لِآلِ مُحَمَّدٍ، إِنَّمَا هِيَ أَوْسَاخُ النَّاسِ، ادْعُوَا لِي مَحْمِيَةَ - وَكَانَ عَلَى الْخُمُسِ - وَنَوْفَلَ بْنَ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ". قَالَ : فَجَاءَاهُ، فَقَالَ لِمَحْمِيَةَ : " أَنْكِحْ هَذَا الْغُلَامَ ابْنَتَكَ "، لِلْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ، فَأَنْكَحَهُ، وَقَالَ لِنَوْفَلِ بْنِ الْحَارِثِ : " أَنْكِحْ هَذَا الْغُلَامَ ابْنَتَكَ "، لِي، فَأَنْكَحَنِي، وَقَالَ لِمَحْمِيَةَ : " أَصْدِقْ عَنْهُمَا مِنَ الْخُمُسِ كَذَا وَكَذَا ". قَالَ الزُّهْرِيُّ : وَلَمْ يُسَمِّهِ لِي.

(٢):

وَقَالَ فِي الْحَدِيثِ : ثُمَّ قَالَ لَنَا : " إِنَّ هَذِهِ الصَّدَقَاتِ إِنَّمَا هِيَ أَوْسَاخُ النَّاسِ، وَإِنَّهَا لَا تَحِلُّ لِمُحَمَّدٍ، وَلَا لِآلِ مُحَمَّدٍ ". وَقَالَ أَيْضًا : ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " ادْعُوَا لِي مَحْمِيَةَ بْنَ جَزْءٍ " وَهُوَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي أَسَدٍ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَعْمَلَهُ عَلَى الْأَخْمَاسِ.

(٣):وَأَقْبَلَ فَقَالَ : " أَلَا إِنَّ الصَّدَقَةَ لَا تَنْبَغِي لِمُحَمَّدٍ، وَلَا لِآلِ مُحَمَّدٍ، إِنَّمَا هِيَ أَوْسَاخُ النَّاسِ، ادْعُوا لِي مَحْمِيَةَ بْنَ جَزْءٍ - وَكَانَ عَلَى الْعُشْرِ - وَأَبَا سُفْيَانَ بْنَ الْحَارِثِ ". فَأَتَيَا فَقَالَ لِمَحْمِيَةَ : " أَصْدِقْ عَنْهُمَا مِنَ الْخُمُسِ

(رواه مسلم كتاب الزكاة تَرْكُ اسْتِعْمَالِ آلِ النَّبِيِّ عَلَى الصَّدَقَةِ)

فَأَتَى عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ وَنَحْنُ عَلَى تِلْكَ الْحَالِ، فَقَالَ لَنَا : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " لَا وَاللَّهِ، لَا نَسْتَعْمِلُ مِنْكُمْ أَحَدًا عَلَى الصَّدَقَةِ،

(رواه ابو داود كتاب الخراج والإمارة بَابٌ : فِي بَيَانِ مَوَاضِعِ قَسْمِ الْخُمُسِ)

___________________

ولا إلي بني هاشم...... ثم ظاهر المذهب إطلاق المنع وقول العيني والهاشمي ،يجوز له دفع زكاته لمثله ،صوابه لا يجوز ،

قوله (إطلاق المنع):يعني سواء في ذلك كل الأزمان وسواء في ذلك دفع بعضهم لبعض ودفع غيرهم لهم. وروى أبو عصمة عن الإمام أنه يجوز الدفع إلى بني هاشم في زمانه؛ لأن عوضها وهو خمس الخمس لم يصل إليهم لإهمال الناس أمر الغنائم وإيصالها إلى مستحقيها. وإذا لم يصل إليهم العوض عادوا إلى المعوض كذا في البحر.

وقال في النهر: وجوز أبو يوسف دفع بعضهم إلى بعض وهو رواية عن الإمام، وقول العيني والهاشمي يجوز له أن يدفع زكاته إلى هاشمي مثله عند أبي حنيفة خلافا لأبي يوسف صوابه لا يجزئ ولا يصح حمله على اختيار الرواية السابقة عن الإمام لمن تأمل اهـ و وجهه أنه لو اختار تلك الرواية ما صح قوله خلافا لأبي يوسف لما علمت من أنه موافق لها وفي اختصار الشارح بعض إيهام،

(الشامي كتاب الزكاة باب المصرف)ج:٣/ص:٢٩٩/م: زكريا ديوبند

ولا يدفع الى بني هاشم وهم آل على وآل عباس وآل جعغر وآل عقيل وآل الحرث بن عبد المطلب كذا في الهداية ،

(الفتاوي الهندية كتاب الزكاة باب المصرف)ج:١/ص:٢٠٨/م:دار الكتب العلميةبيروت لبنان

والله أعلم بالصواب

بنده حقير مفتي شمس تبريز قاسمي والمظاهري

رابطہ:7983145589

۱۸ذی الحجہ/یوم الاثنین/١٤٤٣

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے