حالت ارتداد میں چھوٹی ہوئی نماز روزوں کا شرعی حکم کیا ہے ؟
السلام علیکم
آج کل یہ بالوں میں رنگ لگاتیں نا کیسا ہے
دوسرا سوال
ایک شخص پہلے کافر تھا مسلمان ہوا پھر مرتد ملحد ہوگیا پھر مسلمان ہوا تو پہلے مسلمان ہونے کے بعد درمیان میں جو وقت گذرا ان نمازوں کی قضاء کرنا پڑتاہے یا مسلمان ہونے کی وجہ درمیان کے نمازیں بھی معاف ہوجاتیں
برائے مہربانی جواب مرحمت فرمائیں
🕋 باسمہ تعالی 🕋
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
✒️ الجواب بعونه تعالي ✒️
اولا تو یہ سمجھ لیں کہ کالا خضاب یا کالی مہندی بالوں میں لگانا مکروہ تحریمی ہے،ابوداودشریف کی روایت میں ہے:"حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہماارشادفرماتے ہیں: جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:آخری زمانہ میں کچھ لوگ ہوں گے جوسیاہ خضاب لگائیں گے،جیسے کبوتر کا سینہ،ان لوگوں کوجنت کی خوشبوبھی نصیب نہ ہوگی
مرد و عورت دونوں کے لئے یکساں حکم ہے،
باقی کالے رنگ کے علاوہ سرخ یا کسی بھی طرح کی مہندی لگا سکتے ہیں بشرطیکہ پرت کی طرح جمتا نہ ہو جس سے وضو اور غسل میں پانی پہونچنے کے لئے مانع ہو،
اگر پرت کی طرح جم جاتا ہو اور غسل میں بالوں تک پانی پہنچنے میں مانع ہوجاتا ہو تو ایسی صورت میں چونکہ وضوء اور غسل درست نہ ہوگا لہٰذا نماز ضائع ہونے کے خطرے کے پیش نظر ایسے خضاب اور ڈائی کی اجازت نہیں ہے،
نیز موجودہ دور میں فیشنی رنگ سے بھی حتی الامکان گریز کریں گرچہ وہ رنگ وضو اور غسل میں پانی پہونچنے کے لئے مانع نہ ہو،
دوسری بات مرتد کے تعلق سے تو راجح قول کے مطابق حالت ارتداد میں چھوٹی ہوئی نماز روزوں کی قضاء لازم و ضروری نہیں ہے البتہ مرتد ہونے سے پہلے مسلمان ہونے کی حالت میں جو نماز روزے چھوٹ گئے تھے دوبارہ اسلام قبول کرنے کے بعد ان نمازوں کی قضاء لازم و ضروری ہے،
مذکورہ بالا صورت میں پہلے مسلمان ہونے کے بعد مرتد ہونے سے پہلے جو نماز روزے چھوٹ گئے تھے دوبارہ اسلام قبول کرنے کے بعد ان کی قضاء لازم و ضروری ہے،لیکن دوبارہ اسلام قبول کرنے سے پہلے جو ارتداد کا زمانہ کا گزرا ہے ان کی قضاء لازم نہیں ہے،
📗 والحجة على ماقلنا 📗
حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ الْجَزَرِيِّ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " يَكُونُ قَوْمٌ يَخْضِبُونَ فِي آخِرِ الزَّمَانِ بِالسَّوَادِ كَحَوَاصِلِ الْحَمَامِ، لَا يَرِيحُونَ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ
(سنن أبي داود | أَوَّلُ كِتَابِ التَّرَجُّلِ بَابٌ : مَا جَاءَ فِي خِضَابِ السَّوَادِ)
______________________
(٢):ويقضي ما ترك من عبادة في الإسلام) لأن ترك الصلاة والصيام معصية والمعصية تبقى بعد الردة (وما أدى منها فيه يبطل، ولا يقضي)من العبادات (إلا الحج) لأنه بالردة صار كالكافر الأصلي، فإذا أسلم وهو غني فعليه الحج فقط،
قوله والمعصية تبقى بعد الردة) نقل ذلك مع التعليل قبله في الخانية عن شمس الأئمة الحلواني. قال القهستاني: وذكر التمرتاشي أنه يسقط عند العامة ما وقع حال الردة وقبلها من المعاصي، ولا يسقط عند كثير من المحققين اهـ وتمامه فيه. قلت: والمراد أنه يسقط عند العامة بالتوبة والعود إلى الإسلام للحديث «الإسلام يجب ما قبله» وأما في حال الردة فيبقى ما فعله فيها أو قبلها إذا مات على ردته لأنه بالردة ازداد فوقه ما هو أعظم منه فكيف تصلح ماحية له بل الظاهر عود معاصيه التي تاب منها أيضا لأن التوبة طاعة وقد حبطت طاعاته، ويدل له ما في التتارخانية عن السراجية: من ارتد ثم أسلم ثم كفر ومات فإنه يؤاخذ بعقوبة الكفر الأول والثاني وهو قول الفقيه أبي الليث اهـ ثم لا يخفى أن هذا الحديث يؤيد قول العامة: ولا ينافيه وجوب قضاء ما تركه من صلاة أو صيام ومطالبته بحقوق العباد لأن قضاء ذلك كله ثابت في ذمته، وليس هو نفس المعصية وإنما المعصية إخراج العبادة عن وقتها وجنايته على العبد فإذا سقطت هذه المعصية لا يلزم سقوط الحق الثابت في ذمته، كما أجاب بعض المحققين بذلك عن القول بتكفير الحج المبرور الكبائر، والله سبحانه وتعالى أعلم.
(الشامي كتاب الجهاد باب المرتد )ج/٦/ص/٣٩٧/م/زكريا ديوبند.
☘️والله أعلم بالصواب ☘️
بنده حقير مفتي شمس تبريز قاسمي والمظاهري
رابطہ:7983145589
٥/محرم الحرام/١٤٤٤/يوم الخميس
0 تبصرے