Ticker

6/recent/ticker-posts

چھٹی کے دنوں کی تنخواہ لینا یا دینا شرعاً کیسا ہے ؟

چھٹی کے دنوں کی تنخواہ لینا یا دینا شرعاً کیسا ہے ؟

السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ

*سوال :* مدرسہ میں اساتذہ کے لئے ایک اصول بنایا گیا تھا کہ ہر مہینے میں صرف دو رخصت رہے گی ،زائد رخصت کی صورت میں تنخواہ کاٹ دی جائے گی،

لیکن پہلے سے ہی تنخواہ کم ہونے کی وجہ سے ذمہ دار نے تنخواہ کاٹنا مناسب نہیں سمجھا، اس خیال سے کہ کہیں اساتذہ کی دل آزاری نہ ہو

کیا یہ صحیح ہے کہ اساتذہ کی دل آزاری کو ذہن میں رکھ کر پوری تنخواہ دے دینا

یا یہ کہ مدرسہ کا پیسہ زائد یا فضول استعمال کی صورت میں آجائے گا ،جو کہ اساتذہ کے زائد تنخواہوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ذمہ دار اس مسئلہ سے خوف میں ہے کہ کل قیامت میں مدرسہ کا پیسہ فضول خرچی کی وجہ سے جواب دہ نہ ہوجائے

براہ کرم مدلل جواب عنایت فرمائیں تو نوازش ہوگی؟

🕋 باسمہ تعالی 🕋

 وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته

✒️الجواب بعونه تعالي ✒️

اولا تو یہ سمجھیں کہ مدارس کے اساتذہ کی حیثیت اجیر خاص کی ہوتی ہے یعنی اگر متعینہ وقت میں پڑھانے کے لئے حاضر ہوتے ہیں تو اجرت کے مستحق ہوں گے ورنہ نہیں،

البتہ جو چھٹیاں مہینے یا سال میں کمیٹی یا شوراء کی جانب سے متعین ہیں ان کی تنخواہ لینا شرعاً درست ہے،

دوسری بات مدارس یا مساجد کے ذمہ داران چندہ کے پیسوں کے مالک نہیں ہوتے ہیں کہ جس طرح خرچ کرنا چاہے کر لیں بلکہ ان کی حیثیت امین کی ہوتی ہے،

صورت مذکورہ جب مدرسہ کی جانب سے مہینہ میں دو چھٹی متعین ہے تو زائد چھٹی لینے کی صورت میں ان دنوں کی اجرت کے شرعاً مستحق نہیں ہے،نیز انتظامیہ کا مدرسے کے پیسے سے ان دنوں کی تنخواہ دینا شرعاً جائز نہیں ہے کیوں کہ مدارس کے ذمہ داران پیسوں کے مالک نہیں ہیں بلکہ صرف امین ہے اور امین کو جتنی تصرف کی اجازت ہے بس اتنی ہی تصرف کر سکتا ہے،

اس لیے زائد دنوں کی چھٹیوں کی تنخواہ دینا جائز نہیں ہے،اگر دلجوئی کی خاطر دینا چاہتے ہیں تو اپنی ملکیت میں سے دیں،مدرسے کے مال سے نہیں،

📗 والحجة على ماقلنا 📗

قال في جامع الفصولين :ليس للمتولي ايداع مال الوقف والمسجد إلا ممن في عياله ولا إقراضه ،فلو أقرضه ضمن وكذا المستقرض،

(البحر الرائق كتاب الوقف)ج:٥/ص/٤٠١/م: دار الكتب العلميةبيروت لبنان

عن عمرو بن عوف المزني عن أبیه عن جده رضي اللّٰه عنه أن رسو ل اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم قال: الصلح جائز بین المسلمین إلا صلحًا حرّم حلالاً أو أحلّ حرامًا، والمسلمون علی شروطهم إلا شرطاً حرم حلالاً أو أحل حرامًا". (سنن الترمذي، أبواب الأحکام / باب ما ذکر عن النبي صلی اللّٰه علیه وسلم في الصلح بین الناس)ج:١/ص:٢٥١/النسخة الهندية

ومنها البطالة في المدارس:كأيام الأعياد ،ويوم عاشوراء وشهر رمضان في درس الفقه لم ارها صريحة في كلامهم، والمسئلة على وجهين: فإن كانت مشروطة لم يسقط من المعلوم شئ وإلا فينبغي أن يلحق ببطالة القاضي،وقد اختلفوا في أخذ القاضي ما رتب له من بيت المال في يوم بطالته ،فقال في المحيط:إنه ياخذ في يوم البطالة ؛لانه يستريح لليوم الثاني ،فينبغي أن يكون كذالك في المدارس ؛لأن يوم البطالة للإستراحة،وفي الحقيقة يكون للمطالعة والتحرير عند ذوي الهمة،

(الاشباه والنظائر الفن الأول في القواعد)ج:١/ص:٢٧٣/م/زكريا

 واللہ اعلم بالصواب

بندہ حقیر شمس تبریز قاسمی والمظاہری ،

رابطہ:7983145589

٢٠محرم/یوم الأحد/١٤٤٤

ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے