غائبانہ نمازِجنازہ کا حکم اور اس میں شریک ہونا کیسا ہے ؟
_غائبانہ نمازِجنازہ کا حکم اور اس میں شریک ہونا کیسا ہے ؟
🕋 باسمہ تعالی 🕋
✒️ الجواب بعونه تعالي ✒️
جنازہ کی شرائط میں سے ایک میت کا موجود ہونا ضروری ہے،اسی وجہ سے احناف اور مالکیہ کے یہاں غائب کی نماز جنازہ جائز نہیں ہے اور نہ ہی اس میں شریک ہونا جائز ہے ،
کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی میں صرف ایک مرتبہ غائبانہ نمازِجنازہ ثابت ہے جو آپ نے نجاشی بادشاہ کے لئے پڑھی تھی لیکن فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ وہ دراصل غائبانہ نماز نہیں تھی بلکہ درمیان سے پردے ہٹا دئے گئے تھے جیسا کہ معراج سے واپسی پر کفار مکہ کے سوالات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور بیت المقدس کے درمیان کے تمام حجابات ہٹا دئے گئے تھے
نیز سن چار ہجری میں بئر معونہ میں ستر قراء صحابہ کرام کو شہید کردیا گیا،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ سے اتنی تکلیف پہنچی کہ آپ نے قنوت نازلہ پڑھنا شروع کر دیا اور لعنت کرنے لگے اور اس وقت نماز جنازہ کی فرضیت بھی ہو چکی تھی اس کے باوجود آپ سے ستر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر غائبانہ نمازِجنازہ اداء کرنا ثابت نہیں ہے،
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت بہت سے صحابہ کرام موجود نہیں تھے لیکن انہوں نے غائبانہ نمازِجنازہ ادا نہیں کی جبکہ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قول و فعل پر صحابہ کرام سے زیادہ عامل کوئی نہیں ہو سکتا
اسی لئے احناف اور مالکیہ کے یہاں غائب کی نماز جنازہ جائز نہیں ہے اور نہ ہی اس میں شرکت جائز ہے ،
یہ بھی پڑھیں:میت کی حفاظت کے لئے فریزر خریدنا کر وقف کرنا کیسا ہے ؟
📗 والحجة على ماقلنا 📗
وشرطها أيضا حضوره........ فلا تصح على غائب..... وصلاة النبي(صلى الله عليه وسلم)على النجاشي لغوية أو خصوصية.
قوله لغوية) أي المراد بها مجرد الدعاء وهو بعيد (قوله أو خصوصية) أو لأنه رفع سريره حتى رآه - عليه الصلاة والسلام - بحضرته فتكون صلاة من خلفه على ميت يراه الإمام وبحضرته دون المأمومين، وهذا غير مانع من الاقتداء فتح. واستدل لهذين الاحتمالين بما لا مزيد عليه فارجع إليه، من جملة ذلك أنه توفي خلق كثير من أصحابه - صلى الله عليه وسلم - من أعزهم عليه القراء، ولم ينقل عنه أنه صلى عليهم مع حرصه على ذلك حتى قال «لا يموتن أحد منكم إلا آذنتموني به فإن صلاتي عليه رحمة له،
(الشامي كتاب الصلاة باب صلاة الجنازة)ج/٣/ص/١٠٤/١٠٥/م/دار الكتب العلميةبيروت لبنان
ومن الشروط حضور الميت ووضعه وكونه أمام المصلي فلا تصح على غائب ،
(الفتاوي الهندية كتاب الصلاة باب في الجنائز)ج/١/ص/١٨٠/م/دار الكتب العلميةبيروت لبنان
سَرِيَّةُ بِئْرِ مَعُونَةَ]
وَقَدْ كَانَتْ فِي صَفَرٍ مِنْهَا، وَأَغْرَبَ مَكْحُولٌ رَحِمَهُ اللَّهُ، حَيْثُ قَالَ: إِنَّهَا كَانَتْ بَعْدَ الْخَنْدَقِ.
قَالَ الْبُخَارِيُّ: حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: «بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْعِينَ رَجُلًا لِحَاجَةٍ يُقَالُ لَهُمُ: الْقُرَّاءُ. فَعَرَضَ لَهُمْ حَيَّانِ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ - رِعْلٌ وَذَكْوَانَ - عِنْدَ بِئْرٍ يُقَالُ لَهَا بِئْرُ مَعُونَةَ. فَقَالَ الْقَوْمُ: وَاللَّهِ مَا إِيَّاكُمْ أَرَدْنَا، وَإِنَّمَا نَحْنُ مُجْتَازُونَ فِي حَاجَةٍ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فَقَتَلُوهُمْ، فَدَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ شَهْرًا فِي صَلَاةِ الْغَدَاةِ، وَذَاكَ بَدْءُ الْقُنُوتِ، وَمَا كُنَّا نَقْنُتُ» . وَرَوَاهُ مُسْلِمٌ مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ بِنَحْوِهِ.
(البداية والنهاية)
والله أعلم بالصواب
بنده حقير مفتي شمس تبريز قاسمي والمظاهري،
٢٩/صفر المظفر/يوم الثلاثاء/١٤٤٣ه
0 تبصرے