Ticker

6/recent/ticker-posts

لے پالک (گود لئے ہوئے بچے)سے پردے کا شرعی حکم نیز بچہ کو اصل باپ کی طرف منسوب نہ کرنا کیسا ہے ؟

لے پالک (گود لئے ہوئے بچے)سے پردے کا شرعی حکم نیز بچہ کو اصل باپ کی طرف منسوب نہ کرنا کیسا ہے ؟

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎

عرض ہے کہ ایک بچہ اسکی عمر ایک دن ہے والدہ کا انتقال ہو گیا  اس بچہ کو اسکی چچی نے گود اٹھا لیا اسکے والد نے اسکو اپنے چھوٹے بھای کو رکھنے کے لۓ دیدیا اب یہ بچہ اپنے چچا اور چچی کے پاس پرورش پارہا ہے  اب دو سٶال پیدا ہوتے ہے  پہلا جب یہ بچہ بالغ ہوگا تو کیا یہ اپنی اس والدہ سے پردہ کریگا  اگر کریگا تو کیسے یہ اسے جدا ہوگا جبکہ یہ اسی کو ماں سمجھتا ہے   اسی  

کہ پاس اسنے آنکھے کھولی ہے  

دوسری بات یہ ہےکہ اسکے چچانے جسنے پرورش کی ہے اسکے نام کے ساتھ اپنا نام لکھ وادیا ہے آدھار کارڑ مے تو کیا شرعی اعتبار سے اسمے کوچھ خرابی ہے

والد کے لۓ کس کا نام ضروری ہے  دونوں جواب دیکر شکریہ کا موقع عنایت فرماۓ

🕋 باسمہ تعالی 🕋

وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته

✒️ الجواب بعونه تعالي ✒️

اولا تو یہ سمجھ لیں کہ محض گود لینے سے گود لینے والے چچا یا چچی حقیقی ماں باپ شرعاً نہیں کہلاتے ہیں ،اس لئے بچہ کے بالغ ہونے کے بعد چچی کے لئے مذکورہ بچے سے پردہ کرنا ضروری ہوگا

اس لیے ایسی صورت میں شریعت کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ چچی اس بچے کو اپنا ایک دو قطرہ دودھ بھی پلا دے ،اس سے چچی بچے کی رضاعی ماں ہو جائے گی اور رضاعی ماں بیٹے کے درمیان پردہ نہیں ہے ،

دوسری بات آدھار کارڈ پر بچے کے نام کے ساتھ اصل والدین کی جگہ چچا چچی کا نام لکھوانا بلکل جائز نہیں ہے ،یہ گناہ کبیرہ ہے ،قرآن کریم میں زمانہ جاہلیت کے اس طریقے کی تردید کی گئی ہے نیزابوداؤد شریف کی روایت ہے کہ کسی بچے کو اس کے اصل باپ کے علاوہ دوسرے کی طرف منسوب کرے تو اس پر اللہ تعالیٰ کی مسلسل لعنت برستی رہتی ہے ،مسلم شریف کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص کسی بچے کے کسی دوسرے کی طرف منسوب کرے جبکہ اسے معلوم ہے کہ وہ اس کا اصل باپ نہیں ہے تو ایسے شخص پر جنت حرام ہے، نیز دار الافتاء دار العلوم دیوبند کا فتویٰ بھی پڑھیں:

 بسم الله الرحمن الرحيم

فتوی:  کسی کے بچے کو گود لینا تو جائز ہے مگر ولدیت بدلنا حرام اور بہت بڑا گناہ ہے، ایسے شخص پر جو نسب اور ولدیت کو بدلے اس کے اوپر قیامت تک کے لیے لعنت آئی ہے، بالغ ہونے تک اس کی پرورش کرسکتے ہیں اور گھر میں ساتھ رکھ سکتے ہیں، بالغ ہونے کے بعد آپ کی بیوی سے اس کو اور آپ کی بیوی کو اس سے پردہ کرنا ہوگا، اور آپ کے مرنے کے بعد آپ کے مال میں وارث نہ ہوگا، نہ آپ کی بیوی کے مال میں وارث ہوگا۔

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،

دارالعلوم دیوبند

خلاصہ یہ ہے کہ چچی کو چاہیے کہ کبھی بھی دو سال کے اندر اندر ایک مرتبہ اپنا دودھ پلا دے اس طرح سے وہ رضاعی ماں بن جائے گی اور رضاعی ماں کے لئے رضاعی بیٹے سے پردہ نہیں

دوسری بات بچہ کو اصل ماں باپ کی طرف ہی منسوب کیا جائے ،

📗 والحجة على ماقلنا 📗

وَما جَعَلَ أَدعِياءَكُم أَبناءَكُم ۚ ذ‌ٰلِكُم قَولُكُم بِأَفو‌ٰهِكُم ۖ وَاللَّهُ يَقولُ الحَقَّ وَهُوَ يَهدِى السَّبيلَ ﴿٤﴾ ادعوهُم لِءابائِهِم هُوَ أَقسَطُ عِندَ اللَّهِ ۚ فَإِن لَم تَعلَموا ءاباءَهُم فَإِخو‌ٰنُكُم فِى الدّينِ وَمَو‌ٰليكُم ۚ وَلَيسَ عَلَيكُم جُناحٌ فيما أَخطَأتُم بِهِ وَلـٰكِن ما تَعَمَّدَت قُلوبُكُم ۚ وَكانَ اللَّهُ غَفورً‌ا رَ‌حيمًا ﴿٥﴾  سورةالاحزاب

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّاءَ بْنِ أَبِي زَائِدَةَ ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ ، عَنْ سَعْدٍ ، وَأَبِي بَكْرَةَ كِلَاهُمَا يَقُولُ : سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ، وَوَعَاهُ قَلْبِي مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " مَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ، وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ غَيْرُ أَبِيهِ فَالْجَنَّةُ عَلَيْهِ حَرَامٌ "

(صحيح مسلم كتاب الإيمان بَابٌ : حَالُ إِيمَانِ مَنْ رَغِبَ عَنْ أَبِيهِ)

قليل الرضاع وكثيره إذا حصل في مدة الرضاع تعلق به التحريم كذا في الهداية

يحرم على الرضيع أبواه من الرضاع وأصولهما وفروعهما من النسب والرضاع جميعا حتى أن المرضعة لو ولدت من هذا الرجل أو غيره قبل هذا الإرضاع أو بعده أو أرضعت رضيعا أو ولد لهذا الرجل من غير هذه المرأة قبل هذا الإرضاع أو بعده أو أرضعت امرأة من لبنه رضيعا فالكل إخوة الرضيع وأخواته

(الفتاوي الهندية كتاب الرضاع)ج/١/ص/٣٧٦/م/دار الكتب العلميةبيروت لبنان

والله أعلم بالصواب

بنده حقير مفتي شمس تبريز قاسمي والمظاهري

رابطہ:7983145589

يوم الاثنين/٢٧/ربيع الاول/١٤٤٣/

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے