🕋 باسمہ تعالی🕋
✒️ الجواب بعونہ تعالیٰ✒️
غیر مسلم کو زکوٰۃ یاصدقات واجبہ (صدقہ فطر،نذر) کی رقم دینا بلکل جائز نہیں ہے
خواہ کتنا ہی ضرورت مند یامجبورکیوں نہ ہو یا کتنا ہی اچھا رفاہی خدمات انجام دیتا ہو،زکات یہ مسلمان غرباء کا حق ہے،صرف مسلمان غرباء ومساکین کو ہی دیا جائے،
اگر کسی نے زکوٰۃ کی رقم کافر کو دی تو زکوٰۃ اداء نہ ہوگی،البتہ نفلی صدقات و خیرات کی رقم کافر کو بھی دینا جائز ہے،☘️
مزید تفصیل کے لئے پڑھیں☘️
۔(صدقہ کی تین قسمیں ہیں:( ۱) فرض، جیسے زکات (٢) واجب، جیسے نذر، صدقہ، فطر وغیرہ۔ (٣) نفلی صدقات،جیسے عام خیرات۔پہلی دو قسموں کے صدقات(زکات، صدقاتِ واجبہ وغیرہ) کسی مسلمان مستحق شخص کو دینا ہی ضروری ہے،جب کہ نفلی صدقات غریب اور امیر دونوں کو دے سکتے ہیں،
اور مستحق زکات سے مراد یہ ہےکہ :جس مسلمان کی ملکیت میں اس کی ضروریاتِ اصلیہ سے زائد نصاب کے برابر یعنی ساڑھے سات تولہ سونا،یا ساڑھے باون تولہ چاندی،
یا اس کے بقدر مالِ تجارت ، کیش یا کوئی سامان نہ ہو،
جس شخص کے پاس ضرورت سے زائد اتنا سامان یا مال موجود ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی تک پہنچتی ہو وہ شرعاً مال دار ہے،
اور مال دار کو زکات دینا جائز نہیں ہے،
۲غیر مسلم اگر ضرورت مند ہو تو اس کو زکات دینا تو جائز نہیں ہے، اس لیے کہ زکات کی ادائیگی کے لیے مسلمان مستحق کو مالک بنانا ضروری ہے،
البتہ نفلی صدقات وغیرہ سے غیر مسلم کی مدد کی جاسکتی ہے.
📗 والحجة على ماقلنا📗
کذا فی الھندیہ:
وأما الحربي المستأمن فلا یجوز دفع الزکوٰۃ والصدقۃ الواجبۃ إلیہ بالإجماع۔وأما أہل الذمۃ فلا یجوز صرف الزکاۃ إلیہم بالاتفاق،
ویجوز صرف صدقۃ التطوع إلیہم بالاتفاق،واختلفوا في صدقۃ الفطر والنذور والکفارات،قال أبوحنیفۃ ومحمدؒ: یجوز إلا أن فقراء المسلمین أحب إلینا( ۱؍۱۸۸)
قال الکاساني: لا یجوز صرف الزکاة الی الکافر بلا خلاف لحدیث معاذ رضي اللّٰہ عنہ: خذ من أغنیائہم وردہا الی فقرائہم
(بدائع الصنائع:۲/۴۹، کتاب الزکاة، فصل الذي یرجع الی الموٴدی الیہ،ط: دار الکتب العلمیة، بیروت، تاتارخانیة: ۳/۲۱۱، ط: زکریا، الہندیة: ۱/۱۸۸)
وقال الحصکفي: سکت عن ”الموٴلفة قلوبہم“ لسقوطہم اما بزوال العلة أو نسخ بقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لمعاذ في آخر الأمر:
خذہا من أغنیائہم و ردہا في فقرائہم۔ قال ابن عابدین:قولہ: (لسقوطہم) أي: في خلافة الصدیق لما منعہم عمر رضي اللّٰہ عنہ،
وانعقد علیہ اجماع الصحابة۔۔۔۔۔۔۔۔۔وقال: فلا تدفع الی من کان من الموٴلفة کافراً أو غنیاً،وتدفع الی من کان منہم مسلماً فقیراً بوصف الفقر لا لکونہ من الموٴلفة
(رد المحتار مع الدر المختار: ۲/۳۴۲، کتاب الزکاة، باب مصرف الزکاة والعشر، ط: دار الفکر، بیروت)
☘️ واللہ اعلم بالصواب☘️
بندہ حقیر شمس تبریز قاسمی والمظاہری
رابطہ:7983145589
0 تبصرے