🕋بإسمه تعالى 🕋
☘وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته ☘
✒الجواب بعونه تعالى ✒
أولاً تو یہ یاد رہے کہ اگر امام قرأت کرتے ہوئے بھول جائے یا کوئی آیت چھوٹ جائے تو لقمہ دینا جائز ہے ،کوئی واجب یا فرض نہیں ہے.
دوسری بات اگر ایسی صورت پیش آجائے تو فوراً لقمہ دینا مکروہ ہے ،بلکہ مقتدی کو انتظار کرنا چاہیے،
اگر امام غلطی درست نہ کر سکے اور خاموش کھڑا ہو جائے یا پھر متعدد بار اسی آیت کو پڑھتا رہے
تو اب مقتدی کے لیے لقمہ دینا جائز ہے ،لیکن فورا لقمہ دینا جیسا کہ تراویح میں بیشتر مساجد میں ہوتا ہے یہ مکروہ ہے.
نیز امام کو بھی چاہیے کہ اگر تلاوت کی واجب مقدار مثلاً تین چھوٹی آیت یا ایک بڑی آیت کے مقدار تلاوت کر چکا ہے
تو پھر بھول ہو جانے کے بعد رکوع میں چلا جانا چاہئے یا پھر دوسری سورت پڑھ لینی چاہیے
اور مقتدی کو لقمہ دینے پرمجبور نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ایسا کرنا بھی مکروہ ہے. ➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
📘والحجة علي ما قلنا 📘
ويكره للمقتدي أن يفتح على إمامه من ساعته ؛لجواز أن يتذكر من ساعته فيصير قارئاً خلف الإمام من غير حاجة. كذا في محيط السرخسي.
ولا ينبغي للإمام أن يلجئهم إلى الفتح ؛ لأنه يلجئهم إلى القراءة خلفه وإنه مكروه،بل يركع إن قرأ قدر ما تجوز به الصلاة،وإلا ينتقل إلى آية أخرى.كذا في الكافي.وتفسير الإلجاء:أن يردد الآية أو يقف ساكتاً. كذا في النهاية
(الفتاوي الهندية كتاب الصلاة باب ما يفسد الصلاة ومايكره فيها) ج/١/ص /١١٠/م /دار الكتب العلمية بيروت
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
🌲والله اعلم بالصواب 🌲
بنده حقير شمس تبريز قاسمي والمظاهري
رابطہ :7983145589
٩/شعبان المعظم /يوم الثلاثاء /١٤٤٢
0 تبصرے