Ticker

6/recent/ticker-posts

گروی رکھے ہوئے زیورات کی زکوٰۃ کیسے ادا کریں؟

گروی رکھ ہوئے زیورات کی زکوٰۃ کیسے ادا کریں؟
السلام علیکم مفتی صاحب مسئلہ:
یہ بینگ میں سونا رکھ کر تین لاکھ روپے لئے ہیں یہ رھن میں شمار ھوگا یا قرض میں
کیا اسکی بھی زکوۃ نکالنا ھے?
جواب مرحمت فرمادیں مھر بانی ھو گی

باسمه تعالي

وعليكم السلام ورحمةالله وبركاته

🖋️الجواب بعونه تعالي🖋️

اولا تو یہ سمجھ لیں کہ زکوٰۃ کے وجوب کے لئے مکمل طور پر ملکیت کا ہونا ضروری ہے اور مکمل ملکیت میں دو باتیں ہیں:

ایک تو اس کا مالک ہونا،دوسرا اس پر قبضہ ہونا،

صورت مذکورہ میں گروی رکھے ہوئے مال کی زکوٰۃ گروی رکھنے والے شخص پر واجب نہیں ہے

خواہ بینک میں گروی رکھا ہو یا کسی شخص کے پاس،

کیوں کہ گروی رکھنے والا ان زیورات کا مالک تو ہے لیکن ابھی قبضہ نہیں ہے

اور زکوٰۃ واجب ہونے کے لئے دونوں باتیں ضروری ہیں،

اسی طرح ان زیورات کی زکوٰۃ مرتہن (جس کے پاس گروی رکھا ہوا ہے)پر بھی واجب نہیں ہے کیوں کہ وہ اس کا مالک نہیں ہے صرف قبضہ ہے،

نیز گروی رکھے ہوئے ہوئے زیورات کی قیمت اگر چہ اس کے قرض سے زائد ہو پھر بھی ان زیورات پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی،

مثلاً کسی کے زیورات دس لاکھ کے ہوں اور اس کا قرض دو لاکھ ہو تو

یہاں بقیہ آٹھ لاکھ کے زیورات پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی،

کیونکہ گروی رکھے ہوئے زیورات پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی خواہ اس کی قیمت زیادہ ہو

(۲) دوسری بات اگر کسی شخص نے بیوی سے زیورات لے کر اپنی ضرورت کے لئے گروی رکھا ہے

تو گویا شوہر نے بیوی سے زیورات قرض لیا ہے،اور یہ دین قوی درجہ میں آتا ہے،

اس لئے بیوی پر زکوٰۃ واجب ہوگی،چاہے تو فی الحال ادا کر دے،یا زیورات چھڑانے کے بعد گزرے ہوئے تمام سالوں کی زکوٰۃ ادا کرنی پڑے گی(کتاب النوازل ج/٦/ص/٤٤١)

(٣) تیسری بات گروی رکھ کر جو قرض لیا گیا ہے،

اگر اس قرض کا حساب کرنے کے بعد زیورات کے علاوہ مال ہےجو بقدرِ نصاب پہونچ جاتا ہے تو بقیہ مال میں زکوٰۃ واجب ہوگی،

📗 والحجة على ماقلنا📗

فلا زكاة على مكاتب) لعدم الملك التام، ولا في كسب مأذون،ولا في مرهون بعد قبضه،

قوله:(ولا في مرهون) أي لا على المرتهن لعدم ملك الرقبة ولا على الراهن لعدم اليد، وإذا استرده الراهن لا يزكي عن السنين الماضية،

وهو معنى قول الشارح بعد قبضه، ويدل عليه قول البحر ومن موانع الوجوب الرهن ح وظاهره ولو كان الرهن أزيد من الدين ط.

قلت: لكن أرجع شيخ مشايخنا السائحاني الضمير في قول الشارح بعد قبضه إلى المرتهن كما رأيته بخطه في هامش نسخته،

ويؤيده أن عبارة البحر هكذا:ومن موانع الوجوب الرهن إذا كان في يد المرتهن لعدم ملك اليد اهـ وليس فيها ما يدل على أنه لا يزكيه بعد الاسترداد،

لكن قال في الخانية: السائمة إذا غصبها ومنعها عن المالك وهو مقر ثم ردها عليه لا زكاة على المالك فيما مضى،

وكذا لو رهنها بألف وله مائة ألف فحال الحول على الرهن في يد المرتهن يزكي الراهن ما عنده من المال إلا ألف الدين،

ولا زكاة في غنم الرهن لأنها كانت مضمونة بالدين فرق بين الدراهم المغصوبة والسائمة،

فإنه يزكي الدراهم إذا قبضها دون السائمة ولو الغاصب مقرا. اهـ. وظاهره أنه لا فرق بين السائمة والدراهم فليتأمل،

(الشامي كتاب الزكاة)ج/٣/ص/١٨٠/م/زكريا ديوبند

ومنها الملك التام وهو ما اجتمع فيه الملك واليد وأما إذا وجد الملك دون اليد كالصداق

قبل القبض أو وجد اليد دون الملك كملك المكاتب والمديون لاتجب فيه الزكاة، كذا في السراج الوهاج،

ولا علي الراهن إذا كان الرهن في يد المرتهن هكذا في البحر الرائق،

(الفتاوي الهندية كتاب الزكاة)ج/١/ص/١٨٩/١٩٠/م/دار الكتب العلميةبيروت لبنان.

المستفاد کتاب النوازل ج/٦/ص/٤٤٠/٤٤١/

🌹والله أعلم بالصواب🌹

بنده حقير مفتي شمس تبريز قاسمي والمظاهري،

رابطہ:7983145589

۱۵رمضان/يوم الأحد/١٤٤٣ه‍

ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے