Ticker

6/recent/ticker-posts

زکاۃ کی فرضیت،زکاۃ کن کن لوگوں پر واجب ہے اور کن کن مالوں پر واجب ہے

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ:
زکاة کی فرضیت کب ہوئی اور کن کن مالو پر واجب ہےاور کن کن لوگوں پر واجب ہے،
اگر قرض ہے یا گاڑی قسط پر لیا ہے یا سونا چاندی دیکر کچھ روپیہ قرض لیا ہے
یہ ساری چیزو پر کس طرح زکاة واجب ہوگا مکمل تفصیل سے سمجھادیں مفتی صاحب مہربانی ہوگی جمعہ میں بیان کرناہے؟

🕋 باسمہ تعالی🕋

☘️ وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ☘️

✒️ الجواب بعونہ تعالیٰ✒️

اولا تو یہ سمجھ لیں کہ زکاۃ فرض ہے نماز کی طرح،یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں ایک قول کے مطابق بیاسی (٨٢) مقامات پر نماز اور زکاۃ کی فرضیت کا حکم ایک ساتھ ہے،

اور ایک قول کے مطابق بتیس (٣٢) جگہوں پر بیان کیا گیا ہے،

زکاۃ کی فرضیت کا ثبوت: زکاۃ کی فرضیت قطعی دلیل سے ثابت ہے،زکاۃ کی فرضیت کا انکار کرنے والا کافر ہے،

دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے،ایسے شخص کو قتل کر دیا جائے گا،

چناچہ بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ حضرت ابوبکر نے آپ علیہ السلام کی وفات کے بعد زکاۃ دینے سے انکار کرنے والوں سے کہا:

اگر کسی نے نماز اور زکاۃ کی فرضیت میں فرق کرنے کی کوشش کی تو میں اس کی گردن اڑا دوں گا

(1400 فَقَالَ : وَاللَّهِ لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ، فَإِنَّ الزَّكَاةَ حَقُّ الْمَالِ، وَاللَّهِ لَوْ مَنَعُونِي عَنَاقًا كَانُوا يُؤَدُّونَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَى مَنْعِهَا)

زکاۃ کی فرضیت: ہجرت سے قبل مکہ مکرمہ میں زکاۃ کی فرضیت کا حکم نازل ہوا

البتہ نصاب کی تفصیل اور زکات کی مقدار کا بیان سن دو (٢) ہجری مدینہ منورہ میں ہوا،اور زکاۃ وصول کرنے کا نظام سن آٹھ ہجری میں فتح مکہ کے بعد نافذ ہوا،

زکاۃ کا لغوی اور لفظی معنی:طہارت صفائی،اور افزائش،بڑھوتری،

اصطلاح میں زکاۃ کہتے ہیں اپنے مال سے شریعت کے متعین کردہ مقدار کا کسی شخص کو مالک بنانا جو مسلمان ہو (کافر نہ ہو)غریب ہو (امیر نہ ہو یعنی بقدرِ نصاب مال کا مالک نہ ہو)ہاشمی نہ ہو،

زکاۃ کن کن لوگوں پر واجب ہے؟

زکوٰۃ ایسے عاقل بالغ آزاد مسلمان پر فرض ہے جس کے پاس بقدرِ نصاب مال سال کے اکثر حصے میں موجود ہو،

لہذا کسی نابالغ بچے پر زکاۃ واجب نہیں ہوگی اگر چہ وہ بقدرِ نصاب مال کا مالک ہو،

اسی طرح ایسے پاگل پر بھی زکاۃ فرض نہیں ہے جو پورے سال پاگل رہتا ہو،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زکاۃ کن کن مالوں میں واجب ہے اس کے شرائط؟

زکاۃ ایسے مال میں واجب ہے جس میں چھ شرائط پائی جائیں،

(١) پہلی شرط مال بقدرِ نصاب ہو،لہذا اگر مقدار نصاب سے کم مال میں زکاۃ واجب نہیں ہوگی

(٢) دوسری شرط مکمل طور پر ملکیت ہو یعنی قبضہ اور ملکیت دونوں،اس بات کی تفصیل کے لیے ہمارے پہلے جواب کا ضرور مطالعہ کریں (گروی رکھے ہوئے زیورات کی زکاۃ)

(٣) تیسری شرط ضرورت اصلیہ سے زائد مال ہو،لہذا گھر کی استعمالی چیزوں پر زکاۃ واجب نہیں ہے جیسے گاڑی،فرنیچر،کپڑے وغیرہ اسی طرح کارخانوں کی مشینوں پر بھی زکاۃ نہیں ہے

(٤) چوتھی شرط مال قرض سے پاک ہو لہٰذا اگر کسی پر قرض ہو تو پھر بقدر قرض مال پر زکاۃ واجب نہیں ہوگی،

البتہ اگر کسی کو قرض دے رکھا ہے تو زکاۃ واجب ہوگی،ادائگی میں اختیار ہوگا چاہے تو فی الحال ادا کریں یا رقم ملنے کے بعد،

(٥) پانچویں شرط مال نامی یعنی بڑھنے والا ہو جیسے سونا چاندی یا اموال تجارت یا کرنسی

(٦) چھٹی شرط حولان حول یعنی مال پر سال یا سال کا اکثر حصہ گزرا ہو،

یہ تمام شرطیں پائی جائیں تو ایسے مال پر زکوٰۃ واجب ہوگی،

📗مسئلہ📗:گروی رکھے ہوئے زیورات پر زکاۃ واجب نہیں ہے اگرچہ زیورات کی قیمت قرض سے زائد ہو،

📗مسئلہ:اگر کسی شخص نے بیوی کے زیورات اپنی ضرورت کے لئےگروی رکھے ہیں تو ان زیورات کی زکاۃ بیوی پر واجب رہیگی،زیورات ملنے کے بعد ان کی زکاۃ ادا کرنی پڑے گی،

📗مسئلہ: استعمال کے لئے خریدی گئی گاڑیوں پر زکاۃ واجب نہیں ہے،دوسری بات قسط پر خریدی گئی گاڑی کی باقی رقم اس شخص کے ذمے قرض مانی جائے گی اور اتنی رقم الگ کر کے زکاۃ کا حساب لگایا جائے گا

📗مسئلہ📗: مقروض پر بقدر قرض مال میں زکاۃ واجب نہیں ہے مثلاً کوئی شخص دس لاکھ کا مالک ہو اور وہ دو لاکھ کا مقروض ہو تو دو لاکھ قرض کا الگ کر دیا جائے گا اس پر زکاۃ نہیں ہے،باقی آٹھ لاکھ روپے پر واجب ہوگی،

مسئلہ📗: صرف بقدر نصاب مال پر سال کا گزرنا شرط ہے لہذا زکاۃ کی ادائیگی کے وقت جو بھی رقم ہوگی حتی کہ جیب خرچ بھی تمام مالوں پر زکوٰۃ واجب ہے(فتاوی قاسمیہ ج/۱۰)

📗مسئلہ: زکاۃ کی نیت سے کھانا کھلانے سے زکاۃ کی ادائیگی درست نہیں ہوگی بلکہ کھانا خرید کر مالک بنانا ضروری ہوگا،

اسی طرح زکاۃ کی رقم سے کسی غریب بچے کی فیس ادا کر دینا بغیر مالک بناہوئے

تو اس سے بھی زکاۃ ادا نہیں ہوگی

بلکہ بچے کے ہاتھ میں یا اس کی طرف سے وکیل کا مالک ہونا ضروری ہے جیسا کہ مدارس میں ہوتا ہے،

مزید کن کن رشتہ داروں کو زکاۃ دینا جائز ہے پڑھنے کے لئے کلک کریں

📗 والحجة على ماقلنا📗

كِتَابُ الزَّكَاةِ قَرْنُهَا بِالصَّلَاةِ فِي اثْنَيْنِ وَثَمَانِينَ مَوْضِعًا فِي التَّنْزِيلِ دَلِيلٌ عَلَى كَمَالِ الِاتِّصَالِ بَيْنَهُمَا. وَفُرِضَتْ فِي السَّنَةِ الثَّانِيَةِ قَبْلَ فَرْضِ رَمَضَانَ

(هِيَ) لُغَةً الطَّهَارَةُ وَالنَّمَاءُ،خَرَجَ الْإِبَاحَةُ، فَلَوْ أَطْعَمَ يَتِيمًا نَاوِيًا الزَّكَاةَ لَا يَجْزِيهِ إلَّا إذَا دَفَعَ إلَيْهِ الْمَطْعُومَ كَمَا لَوْ كَسَاهُ بِشَرْطِ أَنْ يَعْقِلَ الْقَبْضَ

إلَّا إذَا حَكَمَ عَلَيْهِ بِنَفَقَتِهِمْ (جَزْءُ مَالٍ) خَرَجَ الْمَنْفَعَةُ، فَلَوْ أَسْكَنَ فَقِيرًا دَارِهِ سَنَةً نَاوِيًا لَا يَجْزِيهِ (عَيَّنَهُ الشَّارِعُ) وَهُوَ رُبْعُ عُشْرِ نِصَابٍ حَوْلِيٍّ خَرَجَ النَّافِلَةُ وَالْفِطْرَةُ

(مِنْ مُسْلِمٍ فَقِيرٍ) وَلَوْ مَعْتُوهًا (غَيْرِ هَاشِمِيٍّ وَلَا مَوْلَاهُ) أَيْ مُعْتَقِهِ، وَهَذَا مَعْنَى قَوْلِ الْكَنْزِ تَمْلِيكُ الْمَالِ: أَيْ الْمَعْهُودِ إخْرَاجُهُ شَرْعًا (مَعَ قَطْعِ الْمَنْفَعَةِ عَنْ الْمُمَلِّكِ مِنْ كُلِّ وَجْهٍ)

فَلَا يُدْفَعُ لِأَصْلِهِ وَفَرْعِهِ (لِلَّهِ تَعَالَى) بَيَانٌ لِاشْتِرَاطِ النِّيَّةِ

(وَشَرْطُ افْتِرَاضِهَا عَقْلٌ وَبُلُوغٌوَإِسْلَامٌ وَحُرِّيَّةٌ) وَالْعِلْمُ بِهِ وَلَوْ حُكْمًا كَكَوْنِهِ فِي دَارِنَا

(وَسَبَبُهُ) أَيْ سَبَبُ افْتِرَاضِهَا (مِلْكُ نِصَابٍ حَوْلِيٍّ) نِسْبَةً لِلْحَوْلِ لِحَوَلَانِهِ عَلَيْهِ (تَامٌّ) بِالرَّفْعِ صِفَةُ مِلْكٍ، خَرَجَ مَالُ الْمُكَاتَبِ (فَارِغٍ عَنْ دَيْنٍ لَهُ مُطَالِبٌ مِنْ 

جِهَةِ الْعِبَادِ) سَوَاءٌ كَانَ لِلَّهِ كَزَكَاةٍ

وَكَفَّارَةٍ (وَ) فَارِغٍ (عَنْ حَاجَتِهِ الْأَصْلِيَّةِ) لِأَنَّ الْمَشْغُولَ بِهَا كَالْمَعْدُومِ.

وَفَسَّرَهُ ابْنُ مَلَكٍ بِمَا يَدْفَعُ عَنْهُ الْهَلَاكَ تَحْقِيقًا كَثِيَابِهِ أَوْ تَقْدِيرًا كَدَيْنِهِ (وَلَا فِي ثِيَابِ الْبَدَنِ)

(الشامي كتاب الزكاة)ج/٣/ص/١٧٠/١٨٢/م/زکریا دیوبند

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

(الفتاوي الهندية كتاب الزكاة)الباب الاول/ج/١/ص/١٨٨/١٨٩/١٩٠/١٩١/١٩٢/١٩٥/م/دار الكتب العلميةبيروت لبنان

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

🌹 واللہ اعلم بالصواب🌹

بندہ حقیر مفتی شمس تبریز قاسمی والمظاہری

رابطہ:7983145589

۱٦/رمضان المبارک/یوم الاثنين/١٤٤٣/ه‍

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے