Ticker

6/recent/ticker-posts

نماز تراویح میں بسم اللہ بلند آواز سے پڑھنا

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ حضرت تراویح میں ایک مرتبہ زور سے بسم اللہ پڑھنا ضروری ہے کیا جبکہ سورہ نمل میں بسم اللہ آتا ہے؟

🕋بإسمه تعالى 🕋

🌿وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته 🌿

✒الجواب بعونه تعالى ✒

جی ہاں نماز تراویح میں پورے قرآن کے اندر کسی بھی سورت کے شروع میں ایک مرتبہ بسم اللہ الرحمن الرحیم بلند آواز سے پڑھنا لازم و ضروری ہے ورنہ قرآن مقتدیوں کی طرف سے ناقص رہ جائے گا ؛

کیوں کہ بسم اللہ امام ابو حنیفہ علیہ الرحمہ کے نزدیک سورہ نمل کے علاوہ قرآن مجید کا ایک جزو (حصہ) ہے،

اس لئے ایک مرتبہ بسم اللہ بلند آواز سے پڑھ دیا جائے تا کہ مقتدی حضرات بھی بسم اللہ سن لیں اور ان کابھی قرآن مکمل ہو جائے،

اگر کسی شخص نے بلند آواز سے نہیں پڑھا تو اس کی تکمیل تو ہو جائے گی لیکن مقتدیوں کا قرآن مکمل نہیں ہوگا

بلکہ ناقص رہ جائے گا اس لیے ایک مرتبہ بلند آواز سے پڑھ دیا جائے،

مزید یہ پڑھیں امداد الاحکام:امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک بسم اللہ صرف ایک مرتبہ پڑھنا ختم قرآن کے لئے ضروری ہے،

اگر ایک دفعہ کسی سورت پر بسم اللہ پڑھ دی گئی تو قرآن پورا ہو گیا بہتر ہے کہ ایک دفعہ تراویح میں جہراً (بلند آواز)سے پڑھا جائے،جیسا کہ تراویح میں سارا قرآن جہر سے پڑھا جاتا ہے،

اگر امام کسی جگہ بھی بسم اللہ کو جہر سے نہ پڑھے بلکہ کسی ایک جگہ سرا (آہستہ)پڑھ لے تو امام کا ختم قرآن تو پورا ہو جائے گا لیکن سامعین کے ختم میں ایک آیت کی کمی رہے گی،

باقی سب سورتوں کے شروع میں بسم اللہ بلند آواز سے پڑھنا مکروہ ہے،اور ہر سورت کے شروع میں آہستہ سے بسم اللہ پڑھنا جائز ہے

بلکہ اگر مقتدیوں پر مشکل نہ گزرے تو مستحب ہے،(امداد الاحکام کتاب الصلاۃ فصل فی التراویح)

📙 نوٹ:آج کل جو یہ رواج چل پڑا ہے کہ تیسویں پارے میں ہی کسی سورت کے آغاز میں بسم اللہ بلند آواز سے پڑھتے ہیں تو یہ ضروری نہیں ہے

بلکہ پورے قرآن میں کسی بھی سورہ سے شروع میں پڑھ سکتے ہیں

📘والحجة علي ما قلنا 📘

ولو قرأ تمام القرآن في التراويح و لم يقرأ البسملة في ابتداء سورة من السور سوى ما في سورة النمل، لم يخرج عن عهدة السنية، و لو قرأها الإمام سرًّا خرج عن العهدة، و لكن لم يخرج المقتدون عن العهدة.

(أحكام القنطرة في أحكام البسملة) ص/٢٧٣/بحواله فتاوى قاسمية /ج/٨/ص /٣٤٨

وهي من القرآن آية أنزلت للفصل بين السور كذا في الظهيرية. 

(الفتاوي الهندية كتاب الصلاة باب صفة الصلاة) ج/١/ص /٨١/م /دار الكتب العلمية بيروت 

المستفاد فتاوى قاسمية 

🌹والله اعلم بالصواب 🌹

بنده حقير شمس تبريز قاسمی والمظاهري 

رابطہ :7983145589

٢٥/رمضان المبارك /٩/ھ/١٤٤٢

ایک تبصرہ شائع کریں

3 تبصرے

  1. ماشاءاللہ مفتی صاحب کافی وضاحت کے ساتھ آپ نے لکھدیا ھے ۔
    اللہ آپکے علم میں عمل میں مزید ترقی عطا فرماۓ اور عمر دراز کرے اور آپ کے علم سے ساری ساری دنیافائدہ اٹھاۓ اور اللہ دارین کی تمام تر خوشیاں آپکے مقدر فرماۓ

    جواب دیںحذف کریں