حج فرض ہونے کے بعد پہلے حج کرنا ضروری ہے یا جماعت میں جانا؟
کیا فرماتے ہیں علماء دین
ایک شخص پر حج فرض ہے اور حج جانے کے لئے اس نے پیسے جمع کر رکھے ہیں اور کچھ لوگ جماعت والے کہہ رہے ہیں کہ پہلے جماعت میں باہر ملک چلو ہمارے ساتھ پھر بعد میں حج کر لینا
تو کیا حج چھوڑ کر جماعت میں جانا صحیح ہے؟
باسمہ تعالی
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
✒️ الجواب بعونه تعالي✒️
اولا تو چند فتاوی پڑھیں:
دارالافتاء دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ مذکورہ بالا سوال کے تعلق سے یہ ہے کہ:
حج فرض ہو جانے کے بعد بلا وجہ شرعی اس کی ادائیگی میں تاخیر کرنا ناجائز اور گناہ کی بات ہے،
اور جماعت میں جانا نہ فرض ہے اور نہ واجب؛
اس لئے آپ نے تبلیغی جماعت سے وابستہ ایک یا چند افراد کے حوالے سے جو بات لکھی ہے،وہ صحیح نہیں ہے،
آدمی کو پہلے حج فرض ادا کرنا چاہئے،
اس کے بعد اگر وسعت و گنجائش اور موقع ہو تو بیرون ملک جماعت میں جانے میں کچھ حرج نہیں،
بیرون ملک جماعت میں نکل کر حج فرض میں تاخیر کرنا جائز نہیں،
نیز فتاوی قاسمیہ میں ہے:
جب زید پر حج فرض ہو چکا ہے،تو اس کے لئے لازم ہے کہ وہ پہلے حج کو ادا کرے بعد میں موقع ہو تو جماعت میں چلا جائے؛
کیونکہ فرضیت حج کے بعد حج کے لیے جانا ضروری ہے،اس میں تاخیر کرنے کی اجازت نہیں ہے؛
کیونکہ خدا نخواستہ حج کی ادائیگی سے پہلے موت آجائے گی تو گنہ گار ہوگا،
خلاصہ کلام ہے کہ حج فرض ہونے کے بعد پہلے حج کرنا ضروری ہے،
بلا کسی شرعی عذر کے حج کی ادائیگی میں تاخیر کرنا ناجائز ہے اور گناہ کا باعث ہے،
حتی کہ اگر حج فرض ہونے کے بعد حج نہیں کیا اور اسی درمیان موت ہو جاتی ہے تو وہ شخص گناہ گار ہوگا،
اس لئے پہلے حج ادا کرے بعد میں وقت ملے تو پھر جماعت میں جائے،
📗 والحجة على ماقلنا📗
(هو فرض مرة علي الفور) في العام الأول عند الثاني،
واصح الروايتين عن الإمام ومالك واحمد:فيفسق وترد شهادته بتأخيره:
أي سنينا لأن تاخيره صغيرة،وبإرتكابه مرة لا يفسق إلا بالإصرار،بحر،
ووجهه أن الفورية ظنية لأن دليل الإحتياط ظني،
ولذا اجمعوا انه لو تراخي كان اداء وان اثم بموته قبله،
وفي القهستاني:فياثم عند الشيخين بالتاخير إلي غيره بلا عذر إلا إذا ادي
في آخر عمره فإنه رافع للإثم بلا خلاف،
قوله (وإن اثم بموته قبله)بالإجماع كما في الزيلعي،
(الشامي كتاب الحج)ج/٣/ص/٤٥٤/٤٥٥/م/زكريا ديوبند
(٢): وهو فرض على الفور وهو الأصح،
فلا يباح له التاخير بعد الإمكان الى العام الثاني،
كذا في خزانة المفتين،
ولو حج في آخر عمره فليس عليه الإثم بالإجماع،ولو مات ولم يحج أثم بالإجماع كذا في التبيين،
(الفتاوي الهندية كتاب المناسك الباب الاول)ج/١/ص/٢٣٩/م/دار الكتب العلميةبيروت لبنان
--------------------------------------
والله أعلم بالصواب
بنده حقير مفتي شمس تبريز قاسمي والمظاهري
رابطہ:7983145589
١١شوال المكرم/يوم الجمعة/١٤٤٣/هجري
0 تبصرے