طلاق کے بعد لڑکی والوں سے منھ دکھائی کی رقم کے واپسی کا مطالبہ کرنا کیسا ہے؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
ہمارے ہاں ایک شادی ہوئی تھی جو کہ چند روز میں ہی جدائی کی نوبت آ گئی،
جو سامان کا لین دین ہوا تھا وہ بھی اک دوسرے کو واپس کر دیا
اب لڑکی کو کچھ موہ دکھائی کی نقد رقم میلی،
اور کچھ تحفے تحائف موصول ہوئے اب لڑکے والے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ رقم اور تحائف بھی واپس کریں
پوچھنا یہ تھا کہ
یہ رقم اور تحائف ان حضرات کا واپس مانگنا کیسا ہے
باسمہ تعالی
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
✒️الجواب بعونه تعالي✒️
اولا تو یہ سمجھ لیں کہ اس طرح کے مسائل کا مدار عرف پر ہے
اگر کسی جگہ یہ عرف ہو کہ منھ دکھائی کی رقم اور ہدایا یہ ساس کی ملکیت ہوتی ہے
گرچہ کچھ دنوں کے لئے دلہن کے پاس رکھے گئے ہوں تو اس صورت میں مذکورہ رقم اور ہدایا لڑکے والوں کو واپس کرنا ضروری ہوگا
لیکن عام طور پر اور اکثر جگہ اس کے برعکس ہے یعنی منھ دکھائی کے موقع پر دئے گئے پیسے اور گفٹ وغیرہ سب دلہن کی ملکیت ہوتی ہیں
تو ایسی صورت میں مذکورہ پیسے کا لوٹانا ضروری نہیں ہے
اور نہ لڑکے والوں کا مطالبہ کرنا جائز ہے،
کیونکہ دلہن اس کی مکمل طور پر مالک ہے،
نیز یہی حکم نکاح کے موقع پر بطورِ سلامی یا بطورِ ہدیہ لڑکے کو دئے گئے پیسوں اور کپڑوں کا ہے
بطورِ ہدیہ لڑکے کو دئے ہوئے پیسوں کا مطالبہ کرنا لڑکی والوں کے لیے بھی جائز نہیں ہے
کیوں کہ لڑکا مکمل طور پر اس کا مالک ہو چکا ہے،
نیز اگر کسی جگہ طلاق کے وقت تحفے اور پیسے واپس کرنے کا رواج ہو تو پھر لڑکی اور لڑکے والوں دونوں کو چاہیے کہ ایک دوسرے کے ہدیے اور تحائف واپس کر دیں
لیکن اگر پیسے یا گفٹ وغیرہ استعمال کی وجہ سے یا یونہی ختم ہو چکے ہیں تو پھر ان چیزوں کا لوٹانا ضروری نہیں ہے اور نہ مطالبہ کرنا درست ہے
📗 والحجة على ماقلنا📗
قوله: وكذا زفاف البنت) أي على هذا التفضيل بأن كان من أقرباء الزوج أو المرأة أو قال المهدي.
أهديت للزوج أو المرأة كما في التتارخانية.
وفي الفتاوى الخيرية سئل فيما يرسله الشخص إلى غيره في الأعراس ونحوها
هل يكون حكمه حكم القرض فيلزمه الوفاء به أم لا؟ أجاب: إن كان العرف بأنهم يدفعونه على وجه البدل يلزم الوفاء به مثليا فبمثله،
وإن قيميا فبقيمته وإن كان العرف خلاف ذلك بأن كانوا يدفعونه على وجه الهبة،
ولا ينظرون في ذلك إلى إعطاء البدل فحكمه حكم الهبة في سائر أحكامه فلا رجوع فيه بعد الهلاك أو الاستهلاك،
والأصل فيه أن المعروف عرفا كالمشروط شرطا اهـ
(الشامی کتاب النکاح)ج/٨/ص/٥٠١/م/زکریا دیوبند
(٢)وإذا بعث الزوج إلي اهل زوجته اشياء عند زفافها،منها ديباج،فلما زفت اليه،
أراد ان يسترد من المرأة الديباج ،ليس له ذالك إذا بعث إليها على وجه التمليك،
كذا في الفصول العمادية،
(الفتاوي الهندية كتاب النكاح)ج/١/ص/٤٢٧/م/دار الكتب العلميةبيروت لبنان
المستفاد كتاب النوازل/٩/
🌹والله أعلم بالصواب🌹
بنده حقير مفتي شمس تبريز قاسمي والمظاهري.
رابطہ:7983145589
١٢/شوال المكرم/يوم السبت١٤٤٣
0 تبصرے