Ticker

6/recent/ticker-posts

مدینہ منورہ کی مٹی کا استعمال قبر میں آسانی کی امید سے کرنا کیسا ہے؟

مدینہ منورہ کی مٹی کا استعمال قبر میں آسانی کے امید سے کرنا کیسا ہے؟

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ایک صاحب ہیں

جو عمرہ کے لئے گئے ہوئے تھے وہاں سے مدینہ منورہ کی مٹی وہ لائے ہوئے ہیں،

وہ چاہتے ہیں کہ میرے مرنے کے بعد میرے قبر میں یہ مٹی ڈالا جائے چاروں طرف سے اس کے بعد جو مٹی بچیں وہ پورے قبرستان میں چھیٹ دینا ہے

کیا یہ چیز درست ہے یا نہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

باسمہ سبحانہ تعالی

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

✒️ الجواب بعونہ تعالیٰ✒️

احادیث سے صرف اتنی بات ثابت ہے کہ مدینہ منورہ کی مٹی میں شفاء ہے،

اس کا استعمال مریضوں کے لیے کیا جاتا ہے اور صحیح بخاری صحیح مسلم میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود مریضوں کو ان الفاظ سے دم کیا کرتے تھے جن میں یہ بھی ہے (بسم اللہ تربة أرضنا، وريقة بعضنا، يشفى سقيمنا، بإذن ربنا)

اس کے علاوہ مدینہ کی مٹی کا استعمال قبر کے لئے یہ قبرستان میں چاروں طرف چھیٹنا اس عقیدے سے کہ اس کی وجہ سے میت کے لئے قبر میں آسانی ہوگی کہیں بھی احادیث سے ثابت نہیں ہے اور نہ تابعین تبع تابعین یا اکابرین سے ثابت ہے

اس طرح کا عمل بدعات کو رواج دینا ہے،ان کے اس عمل کی سختی سے تردید کی جائے،

بعض مورخین نے لکھا ہے کہ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے بعد ان کی قبر سے کچھ لوگ بطور تبرک مٹی لانے لگے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک قبر پر دیواریں بنوادی،

اس واقعہ سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کا اصل مقصد یہ تھا کہ یہ بدعات کا سبب نہ بنے بعد میں

خلاصہ کلام یہ ہے کہ مدینہ کی مٹی کا استعمال قبر میں آسانی کے لیے یہ کہیں بھی ثابت نہیں ہے بلکہ یہ بدعت ہے سختی سے تردید کی جائے،

مدینہ کی مٹی کا استعمال بطور تبرک مریض کے لئے کرنا جائز ہے اور مختلف احادیث سے ثابت ہے

دوسری بات یہ سمجھ لیں کہ مدینہ منورہ سے مٹی لانا بطورِ تبرک یہی مختلف فیہ ہے،

امام نووی علیہ الرحمہ (جو شافعی المسلک ہیں) نے لکھا ہے کہ مدینہ منورہ کی مٹی لانا حرام ہے،

لیکن امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے بطور تبرک لانے کی اجازت دی ہے اور فرمایا کوئی حرج نہیں ہے،

لیکن اس کا استعمال قبر میں آسانی کے لیے بالکل جائز نہیں ہے

والحجة على ماقلنا:

جزم النووي بتحريم نقل تراب الحرم المدني،واحجاره،اكتفاء بما ذكره من الخلاف في الحرم المكي،وصحح فيه التحريم،

وحكي الشافعي عن أبي يوسف أنه قال:سألت ابا حنيفة عن ذالك،فقال لا بأس به،

قال: نقلت من كتاب الشيخ العالم أبي محمد صالح الهزميري قال: قال صالح بن عبد الحليم: سمعت أبا محمد عبد السلام بن يزيد الصنهاجي يقول: سألت أحمد بن يكوت عن تراب المقابر الذي كان الناس يحملونه للتبرك هل يجوز أو يمنع؟

فقال: هو جائز، وما زال الناس يتبركون بقبور العلماء والشهداء والصالحين، وكان الناس يحملون تراب قبر سيدنا حمزة بن عبد المطلب في القديم من الزمان.

قال ابن فرحون عقبه: والناس اليوم يأخذون من تربة قريبة من مشهد سيدنا حمزة، ويعملون منها خرزا يشبه السبح،

واستدل ابن فرحون بذلك على جواز نقل تراب المدينة، وقد علمت مما تقدم أن نقل تربة حمزة رضي الله عنه إنما هو للتداوي؛

ولهذا لايأخذونها من نفس القبر، بل من المسيل الذي عنده المسجد،

ولئن صح مشروعية التبرك بتراب قبورالصالحين،

فهو أمر خاص بها لا دلالة فيه على جواز نقل مطلق تراب الحرم، وهو أمر لم يأذن به الله تعالى ولا رسوله صلّى الله عليه وسلّم والخير كله في الاتباع.

( وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفي حكم نقل تراب لحرم المدني )

ج/١/ص/١١٤/م/دار الکتب العلمیۃ بیروت

البخاري" (7/ 133):

عن عائشة، قالت: كان النبي صلىﷲ عليه وسلم يقول في الرقية:

تربة أرضنا، وريقة بعضنا، يشفى سقيمنا، بإذن ربنا

(صحيح مسلم)(4/ 1724):

عن عائشة، أن رسول ﷲ صلى ﷲ عليه وسلم كان إذا اشتكى الإنسان الشيء منه، أو كانت به قرحة أو جرح،

قال: النبي صلى ﷲ عليه وسلم بإصبعه هكذا، ووضع سفيان سبابته بالأرض، ثم رفعها

«باسم ﷲ، تربة أرضنا، بريقة بعضنا، ليشفى به سقيمنا، بإذن ربنا

قال ابن أبي شيبة: «يشفى» وقال زهير «ليشفى سقيمنا

🌿 واللہ اعلم بالصواب🌿

بندہ حقیر شمس تبریز قاسمی والمظاہری

رابطہ 7983145589

١٧شوال یوم الخمیس/١٤٤٣

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے