ایل آئی سی، لائف انشورنس اور جیون بیمہ پالیسی میں جمع کردہ رقم کی زکوٰۃ کیسے ادا کریں؟
ابھی تین یا چار سال تک جو رقم جمع کیے ہیں کیا اسکا بھی زکاة دینا پڑےگا
اگر دینا ہوگاتو کونسی سال کا رقم کو یا پورے جمع کردہ رقم کو ملاکر زکواة نکالا جایےگا
مفتی صاحب تفصیل سے سمجھادے جابر اڑیسہLic
باسمہ تعالی
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
✒️ الجواب بعونه تعالي✒️
اولا تو یہ سمجھ لیں کہ ایل آئی سی (L I C) یا لائف انشورنس(Life insurance) یا جیون بیمہ پالیسی میں پیسہ جمع کرنا یہ سب ناجائز اور حرام ہے،
کیونکہ شرعاً یہ سب سود اور جوے میں شامل ہیں،اور ان کی حرمت قرآن و حدیث دونوں سے قطعی طور پر ثابت ہے،
اس لئے اس سے حاصل ہونے والی زائد رقم کا نہ تو استعمال جائز ہے اور نہ ہی اس زائد رقم پر زکوٰۃ واجب ہے
بلکہ اس زائد رقم کا بلا نیت ثواب فقیر کو صدقہ کرنا لازم ہے
دوسری بات: مذکورہ کمپنیوں میں جمع کردہ رقم بطور قرض ہوتا ہے
اس لئے ان پیسوں پر بھی زکوٰۃ واجب ہوگی اور ان کو زکوۃ کے حساب میں شمار کیا جائے گا،
البتہ اس طرح کے پیسوں کی زکوٰۃ کے تعلق سے شریعت نے دو طریقے بیان کئے ہیں
پہلا طریقہ تو یہ ہے کہ:
ہر سال زکوٰۃ کی ادائیگی کے وقت جتنی رقم جمع ہے اس رقم کو زکوۃ میں حساب کر کے زکوٰۃ ادا کردیں اور یہ طریقہ آسان ہے
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ:
مذکورہ رقم کے ملنے کے بعد گزشتہ تمام سالوں کی زکوۃ ہر سال کے زکوٰۃ میں شمار کر کے زکوٰۃ ادا کریں
لیکن اس میں حساب مشکل ہو سکتا ہے،
اس لئے پہلا طریقہ اختیار کریں اور ہر سال زکوٰۃ کی ادائیگی کے وقت جتنی رقم جمع ہے اس کی بھی زکاۃ ادا کردیا کریں
مزید گروی رکھے ہوئے زیورات کی زکوٰۃ کیسے ادا کریں ضرور پڑھیں
نیز رشتہ داروں میں کس کس کو زکوۃ دینا جائز ہے ضرور پڑھیں
📗 والحجة على ماقلنا📗
قال الله تعالي:احل الله البيع وحرم الربا.(سورة البقرة)آية:٢٧٥/
يايها اللذين آمنوا إنما الخمر والميسر والأنصاب والأزلام رجس من عمل الشيطان (سورة المائده)آية ٩٠/
عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہما قال:
لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آکل الربوا وموٴکلہ وکاتبہ وشاہدیہ، وقال: ہم سواء.
(رواه مسلم)ج/٢/ص/٧٢/م/اشرفية ديوبند
ولو كان الدين على مقر ملي أو على معسر أو مفلس أي محكوم بإفلاسه،
أو علي جاحد عليه بينة فوصل إلي ملكه لزم زكاة ما مضي،
(الشامي كتاب الزكاة)ج/٣/ص/١٨٤/١٨٥/م/زكريا ديوبند
واعلم أن الديون عند الإمام ثلاثة،قوي،ومتوسط،وضعيف،
فتجب زكاتها إذا تم نصابا وحال الحول
لكن لا فورا بل عند قبض أربعين درهما من الدين القوي،
كقرض وبدل مال تجارة،
وأيضاً ويعتبر ما مضي من الحول قبل القبض في الأصح،
قوله (ويعتبر ما مضي من)أما القوي فلا خلاف فيه،
لما في المحيط من أنه تجب الزكاة فيه بحول الأصل،
لكن لا يلزمه الأداء حتى يقبض منه أربعين درهما،
(الشامي كتاب الزكاة باب زكاة المال)ج/٣/ص/٢٣٦/٢٣٧/٢٣٨/
ويردونها على أربابها إن عرفوهم وإلا تصدقوا لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق،إذا تعذر الرد علي صاحبه،
(الشامي كتاب الحظر والإباحة)ج/٩/ص/٥٥٣/م/زكريا ديوبند
والله أعلم بالصواب
بنده حقير مفتي شمس تبريز قاسمي والمظاهري.
رابطہ 7983145589
٢١ رمضان المبارك/يوم السبت/١٤٤٣هجري
1 تبصرے
Mashallah allah or taraqqi ata farmaye
جواب دیںحذف کریں