والدین کے حکم پر جماعت میں جانا لازم و ضروری ہے کیا؟
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید کہ مزاج میں خیر ہوگا
ایک مسئلہ یہ معلوم کرنا ہے کہ اگر باپ اپنے بیٹے سے اچانک یہ کہے
کہ تمہیں ایک گھنٹے بعد دو دن کے لئے جماعت میں جانا ہے
اور پھر بیٹا جانے سے انکار کر دے تو کیا بیٹا باپ کی اطاعت کا منکر قرار پائیگا۔۔۔؟؟؟
دیگر یہ کہ بیٹے کے نہ جانے پر باپ بیٹے سے کہے کہ ہم تمہارے لئے اس قدر محنت کرتے ہیں
اور تم اطاعت نہیں کرتے تو کیا باپ کا یہ کہنا درست ہے
اور کیا یہ بات نافرمانی میں شمار ہوگی؟؟؟؟؟
مدلل جواب دے کر ممنون و مشکور ہوں
باسمہ تعالی
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
✒️ الجواب بعونه تعالي✒️
شرک اور معصیت کے کاموں کے علاوہ تمام جائز اور مباح کاموں میں والدین کے حکم کی اطاعت و فرمانبرداری کرنا شرعاً اور اخلاقی کے اعتبار سے بھی فرض ہے،
صورت مذکورہ میں بھی فی نفسہ جماعت میں جانا لازم اور ضروری نہیں ہے
لیکن والد کے حکم کی بجا آوری پر جماعت میں جانا لازم اور ضروری تھا،کیون کہ شرعاً شرک اور معصیت کے علاوہ ہر جائز اور مباح کاموں میں ان کا ماننا فرض ہے اور جماعت میں جانا کوئی معصیت یا شرک کا کام نہیں ہے
اس لیے والد کے حکم پر عمل کرنا ضروری ہے،حتی کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم
کا فرمان ہے کہ اگر والدین ظلم کریں اپنی اولاد پر پھر بھی اولاد کے اوپر فرض ہے کہ وہ جائز کاموں میں والدین کی اطاعت کرے،
نیز والدین کو بھی چاہیے کہ غیر واجب اور غیر لازم چیز پر اولاد کو مجبور نہ کریں اور بچوں کی جائز خوشیوں کا خیال رکھے
نیز یہ بھی پڑھیں:
ابن عباس قال: قال رسول الله ﷺ: من أصبح مطیعاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من الجنة
وإن کان واحداً فواحداً، ومن أصبح عاصیاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من النار، إن کان واحداً فواحداً،
قال رجل: وإن ظلماه؟ قال: وإن ظلماه وإن ظلماه وإن ظلماه.رواه البیهقي في شعب الإیمان
(مشکاة المصابیح، کتاب الآداب، باب البر والصلة، الفصل الثالث)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا مطیع وفرماں بردار ہو
تو اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کوئی ایک (حیات) ہو (اور وہ اس کا مطیع ہو) تو ایک دروازہ کھول دیا جاتاہے
اور جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا نافرمان ہو تو اس کے لیے صبح کے وقت جہنم کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں،
اور اگر والدین میں سے کسی ایک کا نافرمان ہو تو ایک دروازہ جہنم کا کھول دیا جاتاہے،
ایک شخص نے سوال کیا:اگرچہ والدین ظلم کریں؟ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگرچہ وہ دونوں اس پر ظلم کریں،اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں۔ (بیہقی فی شعب الایمان)
دیکھ لیجیے رسول اللہ ﷺ نے کیا تعلیم ارشاد فرمائی؟ والدین خواہ ظالم ہی کیوں نہ ہوں، اولاد کا کام ان کا احتساب یا اصلاح نہیں ہے،
بلکہ اس صورت میں بھی اولاد کا فرض ان کی اطاعت ہے، والدین سے ان کا رب خود حساب لے لے گا،
لیکن اس صورت میں اولاد نافرمانی کرے گی تو وہ اللہ کے ہاں غضب کی مستحق ہوگی، اور اس کے لیے جہنم کا دروازہ کھل جائے گا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ناجائز اور شرک کے علاوہ تمام جائز کاموں میں ان کی اطاعت کرنا ضروری ہے
نیز والدین کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کی خوشی کا خیال رکھتے ہوئے غیر واجب اور غیر لازم چیز پر مجبور نہ کریں
والحجة على ماقلنا:
"عن عبد الرحمن بن أبي بكرة عن أبيه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ألا أحدثكم بأكبر الكبائر؟
قالوا: بلى يا رسول الله، قال: الإشراك بالله، وعقوق الوالدين، قال:وجلس وكان متكئا،قال: وشهادة الزور أو قول الزور،
فما زال رسول الله صلى الله عليه وسلم يقولها
حتى قلنا ليته سكت،
(وعقوق الوالدين) بضم العين المهملة مشتق من العق
وهو القطع والمراد به صدور ما يتأذى به الوالد من ولده من قول أو فعل إلا في شرك أو معصية ما لم يتعنت الوالد،
وضبطه ابن عطية بوجوب طاعتهما في المباحات فعلا وتركا، واستحبابها في المندوبات وفروض الكفاية كذلك،
ومنه تقديمهما عند تعارض الأمرين، وهو كمن دعته أمه ليمرضها مثلا بحيث يفوت عليه فعل واجب إن أستمر عندها
ويفوت ما قصدته من تأنيسه لها وغير ذلك أن لو تركها وفعله
وكان مما يمكن تداركه مع فوات الفضيلة كالصلاة أول الوقت أو في الجماعة
(قال وجلس
أي للاهتمام بهذا الأمر وهو يفيد تأكيد تحريمه وعظم قبحه (وكان متكئاً) جملة حالية،
وسبب الاهتمام بذلك كون قول الزور أو شهادة الزور،
أسهل وقوعاً على الناس والتهاون بها أكثر، فإن الإشراك ينبو عنه قلب المسلم. والعقوق يصرف عنه الطبع،
وأما الزور فالحوامل عليه كثيرة كالعداوة والحسد وغيرهما
فاحتيج إلى الاهتمام بتعظيمه،
وليس ذلك لعظمهما بالنسبة إلى ما ذكر معها من الإشراك قطعاً،بل لكون مفسدة الزور متعدية إلى غير الشاهد
بخلاف الشرك فإن مفسدته قاصرة غالباً. وهذا الحديث يأتي أيضاً بسنده ومتنه في الشهادات."
(تحفة الأحوذي شرح جامع الترمذي ما جاء في عقوق الوالدين)ج/٦/ص/٢٣/م/دار الكتب العلميةبيروت
والله أعلم بالصواب
بنده حقير مفتي شمس تبريز قاسمي والمظاهري
رابطہ:7983145589
١٨شوال المکرم/یوم الجمعہ/١٤٤٣
0 تبصرے