گیم کھیل کر پیسہ کمانا اور دانی ڈاٹا (Danidata)گیم کے ذریعے پیسے کمانا شرعاً کیسا ہے؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ
بعد سلام مسنون عرض ہے کہ ایک شخص گیم کھیلتا ہے اور وہ گیم اسطرح کا ہے
کہ اس میں اگر ہم نے ۵۰۰ روپئہ لگا دیئے تو ہمارے پیسے نہیں کٹتے لیکن ہم کو (کھیلنے والے) کو کچھ روپئے ملتے ہیں تو کیا وہ پیسے سود میں داخل ہوں گے،
DaniData.یہ ایک ایپ ہے، نہیں پیسے ہی ملتے ہیں ان کو آپ کسی بھی وقت استعمال کر سکتے ہیں
فقط والسلام ۔۔
ایک بات اور مفتی صاحب اس میں ٹائم ۵ سے ۱۰ سیگنڈ تک ہی خرچ ہوتا ہے؟
.................................
باسمه تعالي
🌿 وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته🌿
✒️الجواب بعونه تعالي✒️
أولا تو یہ سمجھ لیں کہ کسی بھی کمائی کے حلال و حرام کا تعلق اس چیز سے ہوتا ہے جس کے ذریعے کمایا جا رہا ہے،
اس لیے پہلے ویڈیو گیم کھیلنے کا حکم یا اس کی شرائط سمجھیں،
کسی بھی گیم کے جواز کے لئے علماء نے کچھ شرائط بیان کی ہیں:
(١) کھیل بذاتِ خود جائز ہو، اس میں کوئی ناجائزبات نہ ہو، مثلاً جان دار کی تصاویر ہوں تو وہ جائز ہی نہیں ہوگا
(٢) اس کھیل میں کوئی دینی یا دنیوی منفعت ہو مثلاً جسمانی ورزش وغیرہ ،محض لہو لعب یا وقت گزاری کے لیے نہ کھیلا جائے
(٣)کھیل میں غیر شرعی امور کا ارتکاب نہ کیا جاتا ہو، مثلاً جوا وغیرہ
(٤)کھیل میں اتنا غلو نہ کیا جائے کہ شرعی فرائض میں کوتاہی یا غفلت پیدا ہو،
(ملخص از دار الافتاء بنوری ٹاؤن کراچی)
اب دیکھئے اکثر گیم کا حال یہی ہے کہ مذکورہ بالا مفاسد میں سے کوئی نہ کوئی ایک فاسد چیز ضرور پائی جاتی ہے،
اس لیے اس طرح کا گیم کھیلنا اور پیسے کمانا دونوں ہی ناجائز اور حرام ہے،
صورت مسئولہ میں آپ نے جس ایپ کا ذکر کیا ہے اس سے بھی پیسے کمانا ناجائز اور حرام ہے کئی فاسد چیزوں کی وجہ سے:
نمبر ایک اس ایپ کو کھولتے ہی چند سکینڈ کی ویڈیو چلتی ہے،جو شرعاً ناجائز اور حرام ہے
دوسری چیز آپ نے بتایا گیم کھیلنے کے پیسے ملتے ہیں اور ہماری تحقیق کے مطابق گیم کھیلنے پر نہیں،
بلکہ ٹیم کا انتخاب کر کے پیسے لگاتے ہیں پھر اس میں جیت پر پیسے ملتے ہیں جو شرعاً جوا اور قمار میں شامل ہو کر ناجائز اور حرام ہے
یہی وجہ ہے کہ غلطی سے اگر کسی دوسری ٹیم کا انتخاب ہو گیا تو نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے،
📗 والحجة على ماقلنا📗
فالضابط في هذا،
أن اللهو المجرد الذي لا طائل تحته، وليس له غرض صحيح مفيد في المعاش ولا المعاد حرام أو مكروه تحريماً،
وما كان فيه غرض ومصلحة دينية أو دنيوية، فإن ورد النهي عنه من الكتاب أو السنة كان حراماً أو مكروهاً تحريماً،
وأما مالم يرد فيه النهي عن الشارع وفيه فائدة ومصلحة للناس، فهو بالنظر الفقهي علي نوعين ،
الأول ما شهدت التجربة بأن ضرره أعظم من نفعه ومفاسده أغلب علي منافعه، وأنه من اشتغل به الهاه عن ذكر الله وحده وعن الصلاة والمساجد التحق ذلك بالمنهي عنه لاشتراك العلة فكان حراماً أو مكروهاً،
والثاني ماليس كذالك فهو أيضاً إن اشتغل به بنية التلهي والتلاعب فهو مكروه،
وإن اشتغل به لتحصيل تلك المنفعة وبنية استجلاب المصلحة
فهو مباح، بل قد ير تقي إلى درجة الاستحباب أو أعظم منه،
وعلي هذا الأصل فالألعاب التي يقصد بها رياضة الأبدان أو الأذهان جائزة في نفسها مالم يشتمل علي معصية أخري،
وما لم يؤد الانهماك فيها إلى الاخلال بواجب الإنسان في دينه و دنياه،
(تکملة فتح الملهم،قبیل کتاب الرؤیا)ج/٤/ص/٤٣٥/م/دارالعلوم کراچی
ولا لأجل المعاصي مثل الغناء والنوح والملاحي.
(الشامي كتاب الإجارة باب الإجارة الفاسدة) ج/٩/ص/٣٢/م/اشرفية دیوبند
وقال ابوحنیفہ رحمه الله تعالى :لاتصح الإجارة على شيء من اللهو والمزامير والطبل وغيره لأنها معصية والإجارة علي المعصية باطلة.
(الفتاوي التاتارخانية) كتاب الإجارة الفصل الخامس عشر في الإستئحار علي المعاصي. ج/١٥/ص/١٣٢/م/زكريا دیوبند.
واللہ اعلم بالصواب
بندہ حقیر شمس تبریز قاسمی والمظاہری
رابطہ:7983145589
٢٣/شوال المكرم/١٤٤٣/يوم الاثنين
0 تبصرے