Ticker

6/recent/ticker-posts

قنوت نازلہ کی حقیقت اور موجودہ حالات میں قنوت نازلہ پڑھنا کیسا ہے؟

موجودہ حالات میں قنوت نازلہ پڑھنا کیسا ہے؟

Assalamualaikum

قنوت نازلہ کا کیا حکم ہے ؟

١ کن حالات میں قنوت نازلہ پڑھی جائیگی

٢ کیا ان حالات میں بھی قنوت نازلہ پڑھ سکتے ہیں

٣:اگرمام قنوت نازلہ نہ پڑھے اور مقتدی اس پر اصرار کریں تو کیا حکم ہے

ایک امام صاحب نے یہ کہا ہے کہ میں مفتی صاحب سے پوچھوں گا تب پڑھوں گا

تو کیا دعاء مانگنے کے لیے بھی کسی مفتی کی اجازت لینی پڑی گی یا جب کسی مدرسے کا فتویٰ آئیگا تبھی پڑھی جائیگی؟

باسمہ تعالی

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

✒️ الجواب بعونه تعالي✒️

اولا تو قنوت نازلہ کی حقیقت سمجھیں:

قنوت دعا کو کہتے ہیں اور نازلة کے معنی مصیبت کے ہیں، جب مسلمانوں پر کوئی عام مصیبت آجائے ،

مثلا: کفار کی طرف سے مسلمانوں پر عمومی طور پر ظلم و ستم ہونے لگے،تو ایسے موقع پر قنوت نازلہ کا پڑھنا صحیح اور معتبر روایات سے ثابت ہے ،

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قنوت نازلہ میں ظالموں کے نام لے کر کے بد دعا فرمائی اور مظلوموں کے نام لے کر دعا فرمائی،

بیر معونہ کے موقع پر جب ستر صحابہ کو دھوکہ دے کر شہید کر دیا گیا،

تو اس وقت ایک مہینہ تک مسلسل حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قنوت نازلہ پڑھی،(دار الافتاء دار العلوم دیوبند)

ہندوستان کی موجودہ کی حالات میں بھی قنوت نازلہ پڑھ سکتے ہیں،بلکہ اس کا اہتمام کرنا چاہیے لیکن یہ فرض یا واجب درجہ کی چیز نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے امام پر دباؤ ڈالا جائے،

یا اصرار کیا جائے،ایسے موقع پر ساتھ ساتھ توبہ و استغفار کی کثرت کرنی چاہیے کیونکہ محض قنوتِ نازلہ کا رسما اہتمام کرنا مسئلہ کا حل نہیں ہے،

بلکہ استغفار کا اہتمام کریں

ہاں امام کو چاہیے کہ قنوت نازلہ کا اہتمام کریں جبکہ مقتدی حضرات بھی رضامندی کا اظہار کر رہے ہیں

دوسری بات امام صاحب کا کہنا کہ کسی مفتی صاحب سے معلوم کرنے کے بعد شروع کی جائے گی،

تو ان کا یہ عمل درست ہے کیوں کہ فی نفسہ دعا مانگنے میں کوئی حرج نہیں،

لیکن

قنوت نازلہ عام دعا نہیں ہے بلکہ خاص دعا ہے،اس لئے علم نہ ہونے کی صورت میں اہل علم حضرات سے دریافت کرنے میں کوئی غلط بات نہیں ہے اور یہ اجازت کا مسئلہ نہیں ہے

قرآن کریم کی آیت ہے کہ:(فاسئلوا أهل الذكر ان كنتم لا تعلمون)اگر کسی مسئلہ کا علم نہ ہو تو اسے اہل علم حضرات سے دریافت کرو

اس لیے امام صاحب کی بات پر زیادہ غصہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے،

:والحجة على ماقلنا

عن اَنَس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ قال : إن نبی اللّٰہا قنت شھراً فی صلاۃ الصبح، یدعوا علیٰ أحیاء العرب علیٰ رِعْلٍ و ذَکْوان و عُصَیَّۃ وبنی لِحیان

(صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ الرجیع ورعل وذکوان وبئر معونۃ )

ولا یقنت لغیرہ إلا) لنازلۃ،فیقنت الإمام فی الجھریۃ

وفی حاشیۃ ابن عابدینؒ تحت قولہ:’’إلا لنازلۃ‘‘ قال فی الصحاح: النازلۃ:الشدیدۃ من شدائد الدھر،

ولا شک أن الطاعون من أشد النوازل،

قال أبو جعفر الطحاویؒ:إنما لا یقنت عندنا فی صلاۃ الفجر من غیر بلیۃ،

فإن وقعت فتنۃ أو بلیۃ فلا بأس بہٖ،فعلہٗ رسول اللّٰہ ا‘

(حاشیۃ ابن عابدین،کتاب الصلاۃ ، مطلب:فی القنوت للنازلة/٢/٥٤٢ دار المعرفۃ، بیروت)

(المستفاد فتاوى قاسمية)ج/٨/ص/١٥١/

والله أعلم بالصواب

بنده حقير شمس تبريز قاسمي والمظاهري

٢٤/شوال المكرم/يوم الخميس/١٤٤٣

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے