ہم نے تمہیں طلاق دے دیا ہے کہنے کا حکم؟
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام:
کہ زید نے ہندہ کو ایک مرتبہ اس طرح کہا کہ ہم تم کو طلاق دےدیۓ ہمارے گھر سے چلی جاؤ
مذکورہ باتوں سے شریعت کا کیا
حکم ہو رہا ہے؟
مع دلیل جواب عنایت فرمائیں،سائل۔ عبدالرحمن
باسمہ تعالی
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعونہ تعالیٰ
صورت مذکورہ میں ایک طلاق رجعی واقع ہو چکی ہے،تین ماہواری گزرنے سے پہلے پہلے شوہر رجوع کر سکتا ہے،نکاح کی ضرورت نہیں
البتہ تین ماہواری گزرنے کے بعد رجوع نہیں کر سکتا ہے بلکہ سرے سے نکاح کرنی پڑے گی،
نوٹ: صیغہ ماضی اور حال دونوں سے طلاق واقع ہو جاتی ہے،
شوہر کا کہنا ہم نے تمہیں طلاق دے دیا ہے
یا طلاق دیتا ہوں بہر دو صورت طلاق واقع ہو جائے گی،
البتہ صیغہ استقبال سے واقع نہیں ہوتی
یعنی شوہر کا کہنا طلاق دے دوں گا تو اس صورت میں طلاق واقع نہیں ہوتی،
مزید پڑھیں نشہ کی حالت میں طلاق
والحجة على ماقلنا:
باب الصريح (صريحه ما لم يستعمل إلا فيه) ولو بالفارسية (كطلقتك وأنت طالق ومطلقة) واحدة رجعية وان نوي خلافها
بالتشديد قيد بخطابها، لأنه لو قال:
إن خرجت يقع الطلاق أو لا تخرجي إلا بإذني فإني حلفت بالطلاق فخرجت لم يقع لتركه الإضافة إليها (ويقع بها)
أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح،
(الشامي كتاب الطلاق،الصريح)ج/٤/ص/٤٥٧/م/زكريا ديوبند.
واذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذالك او لم ترض،
(الفتاوي الهندية كتاب الطلاق)ج/١/ص/٥٠٤/م دار الكتب العلميةبيروت لبنان
واللہ اعلم بالصواب
بندہ حقیر شمس تبریز قاسمی والمظاہری
رابطہ:7983145589
0 تبصرے