Ticker

6/recent/ticker-posts

Adhya se hasil hone wale janwar ki qurbani kaisa hai ______ادھیا سے حاصل ہونے والے جانور کی قربانی شرعاً کیسا ہے ؟

ادھیا سے حاصل شدہ جانور کی قربانی شرعاً کیسا ہے ؟

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

حضرت مفتی صاحب ہمارے یہاں جانور ادھیا پر دینے اور لینے کا رواج ہے مثلاً ہم کسی کی بکری لاتے ہیں اور اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں ،

جب بچہ پیدا ھوتا ھے تو ایک ہم رکھ لیتے ہیں اور ایک بکری والے کو دیتے ہیں تو کیا اسے جانور کی قربانی کر سکتے ہیں؟

🕋 باسمہ تعالی 🕋

وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته

✒️ الجواب بعونه تعالي ✒️

اولا تو یہ سمجھ لیں کہ ادھیا پر لی جانے والی بکری اور اس سے حاصل ہونے والے بچے دونوں کا مالک اصل جانور کا مالک ہوتا ہے،اور ادھیا پر لینے والا شخص اس کا مالک نہیں ہوتا ہے

اس لیے اصل مالک کے لئے تو مذکورہ جانور سے حاصل شدہ بچہ کی قربانی شرعاً جائز ہے جب وہ ایک سال کا ہو جائے لیکن ادھیا پر لینے والے کے لیے اس جانور کی قربانی شرعاً درست نہیں ہے کیوں کہ وہ اس کا مالک نہیں ہے،وہ محض بکری پالنے کی وجہ اجرت کا مستحق ہوگا، معاشرہ میں رائج مذکورہ طریقہ شرعاً فاسد ہے،

اس لیے مذکورہ طریقہ کو ختم کیا جائے اور فقہاء کرام نے ایک حیلہ بیان فرمایا ہے اس کو اختیار کیا جائے:

طریقہ یہ ہے کہ ادھیا پر دیتے وقت چاہیے کہ اصل مالک جانور کے آدھے حصہ کو ادھیا پر لینے والے شخص کے ہاتھ فروخت کر دے اور پھر اس کی قیمت معاف کر دے تو اس طرح بکری میں دونوں کی شرکت (حصہ داری)ہو جائے گی اور جتنا بھی بچہ پیدا ہوگا دونوں کے درمیان تقسیم ہو جائے گا اور ایسا کرنا شرعاً درست ہے.

اور ایک دوسرا طریقہ یہ ہے کہ بچہ پیدا ہونے کے بعد بچہ اصل مالک کے حوالہ کردیا جائے اور اصل مالک اس کی قیمت متعین کر کے پالنے والے شخص کے ہاتھ فروخت کر دے اور بعد میں اس کی قیمت معاف کر دے تو اس طرح پالنے والے شخص کے لیے بھی مذکورہ جانور کی قربانی شرعاً درست ہوگی

فتاوی محمودیہ،فتاوی ہندیہ وغیرہ میں یہی باتیں ہیں

کتا کاٹے ہوئے جانور کی قربانی شرعاً کیسا ہے؟

📗 والحجة على ماقلنا📗

دفع بقرة إلي رجل على أن يعلفها ومايكون من اللبن والسمن بينهما انصافا،فالإجارة فاسدة.....والحيلة في جوازه أن يبيع نصف البقرة منه بثمن ويبرئه عنه ثم يامر باتخاذ اللبن والمصل فيكون بينهما،

(الفتاوي الهندية كتاب الاجارة الباب الخامس عشر)ج/٤/ص/٥٠٤/م/دار الكتب العلميةبيروت لبنان

وعلي هذا إذا دفع البقرة بالعلف ليكون الحادث بينهما نصفين فما حدث فهو لصاحب البقرة وللآخر مثل علفه واجر مثله ،

(الشامي كتاب الشركة فصل في الشركة الفاسدة)ج٦/ص٥٠٤/م/زكريا ديوبند

فتاوی قاسمیہ/ج/٢٢/

کتاب النوازل/١٤

والله أعلم بالصواب

بنده حقير مفتي شمس تبريز قاسمي والمظاهري ،

رابطہ:7983145589

٢٣ذوالقعده/يوم الجمعة/١٤٤٣

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے