Ticker

6/recent/ticker-posts

کتا کاٹے ہوئے جانور کی قربانی شرعاً کیسا ہے؟

کتا کاٹے ہوئے جانور کی قربانی شرعاً کیسا ہے؟

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

مفتی صاحب ایک مسئلہ درپیش ہے،

ایک بکری کو کئی مہینے پہلے کتے نے کاٹ لیا تھا اور اس کا علاج بھی کرایا تھا تو کیا اس کی قربانی کر سکتے ہیں،اور اس کا گوشت کھانا کیسا ہے،برائے کرم جلد جواب دیں؟

باسمه تعالي

وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته

✒️ الجواب بعونه تعالي✒️

کتے کے کاٹنے پر اگر زخم گہرا نہ ہو یا زخم تو گہرا ہو لیکن دوا وغیرہ کی وجہ سے صحیح ہو گیا ہو تو پھر ایسے جانور کی قربانی شرعاً درست ہے،

نیز اگر اس کے زہر کا اثر ختم ہو گیا ہو تو اس کا گوشت کھانا بھی جائز ہے لیکن احتیاط کرنا بہتر ہے

فتاوی قاسمیہ میں ہے:کتے کے کاٹنے کی وجہ سے زخم نمایاں نہ ہو تو اس کی قربانی بلا کراہت جائز ہے،

قرآن کریم میں شکاری کتے کے کاٹے ہوئے جانور کو کھانے کی اجازت دی گئی ہے (قاسمیہ جلد۲۲)

مزید پڑھیں:ایک ہی جانور میں قربانی اور عقیقہ دونوں کرنا کیسا ہے؟

نیز مذکورہ سوال کے جواب میں دار الافتاء دار العلوم دیوبند کا فتویٰ بھی ملاحظہ فرمائیں:

اس بکرے کی قربانی درست ہے لیکن اس بکرے کا گوشت کھانے سے احتیاط کرنی چاہیے،

کیونکہ کتے نے جس کو کاٹ لیا ہو اس کے زہریلے اثرات پورے جسم میں اور ہرہر جزء میں سرایت کرجاتے ہیں،

اس لیے اس کا گوشت نہ کھانا چاہیے، بلکہ اسے گڑھا کھود کر کہیں دفن کردینا چاہیے۔

اگر زہر کا اثر ختم ہوگیا ہے تو اس کا گوشت کھانے میں کوئی حرج نہیں۔

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،

دارالعلوم دیوبند

📗 والحجة على ماقلنا📗

ومن المشائخ من يذكر لهذا الفصل اصلاً ويقول: كل عيب يزيل المنفعة على الكمال أو الجمال على الكمال يمنع الأضحية، ومالايكون بهذه الصفة لا يمنع.

(الفتاوي الهنديةكتاب الأضحية الباب الخامس (ج/٥/ص /٣٦٩/م/دار الكتب العلمية بيروت

قوله تعالي:وما علمتم من الجوارح مكلبين تعلمونهن مما علمكم الله،فكلوا مما امسكن عليكم (سورة المائده آية ٤)

(المستفاد فتاوي قاسمية)ج/٢٢/

المستفاد دار الافتاء دار العلوم ديوبند

☘️والله أعلم بالصواب☘️

بنده حقير شمس تبريز قاسمي والمظاهري

١٢شوال المكرم /يوم الاثنين/١٤٤٣

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے