مروجہ اسلامی بینکوں سے قرض لینا کیسا ہے؟
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ: مفتی صاحب
اسلامک بینک جو قرض دیتا ہے استعمال پر پرافٹ بھی لیتا ہے جائز ہے یا ناجائز اس کے بارے میں چند لائن تحریر کردیں پلیز
باسمہ تعالی
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
✒️ الجواب بعونه تعالي✒️
اولا تو یہ سمجھ لیں کہ قرض پر اضافی رقم (پرافٹ)لینا اور دینا دونوں ہی سود میں داخل ہے جو شرعاً ناجائز اور حرام ہے،
گرچہ نام کچھ بھی رکھ دیا جائے،یہی جمہور علماء کا فیصلہ ہے
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سود دینے اور لینے والے دونوں پر لعنت فرمائی ہے،
اس لیے مذکورہ طریقے پر قرض لینا جائز نہیں ہے کیوں کہ جس طرح سود لینا ناجائز ہے ویسے ہی کسی کو سود دینا بھی ناجائز اور حرام ہے،
بعض سخت ضرورت کی صورت میں سودی قرض لینا جائز ہے،لیکن ضرورت کی تعیین خود نہ کریں بلکہ مفتیان عظام سے معلوم کریں
دوسری بات موجودہ دور میں جتنے بھی اسلامی بینک سب کے سب سودی نظام پر مشتمل ہیں،
مزید تفصیل کے لیے دار الافتاء بنوری ٹاؤن کراچی کا فتویٰ ضرور پڑھیں:
کیا اسلامی اور شرعی نقطۂ نگاہ سے اسلامی بینکنگ سے کام کیا جا سکتا ہے؟ بینک سے قرض لےکر کاروبار کیا جا سکتا ہے؟
جواب
مروجہ غیر سودی بینکوں کا اگرچہ یہ دعویٰ ہے کہ وہ علماءِ کرام کی نگرانی میں شرعی اصولوں کے مطابق کام کرتے ہیں،
لیکن ملک کے اکثر جید اور مقتدر علماءِ کرام کی رائے یہ ہے کہ ان بینکوں کا طریقہ کار شرعی اصولوں کے مطابق نہیں ہے،
اور مروجہ غیر سودی بینک اور روایتی بینک کےبہت سے معاملات تقریباً ایک جیسے ہیں،
لہذا روایتی بینکوں کی طرح ان میں بھی سرمایہ کاری کرنا جائز نہیں ہے،اور اس سے حاصل ہونے والا نفع حلال نہیں ہے۔
ہمارے علم کے مطابق تاحال پاکستان میں کوئی بھی بینک صحیح شرعی اصولوں کے مطابق نہیں ہے
(تفصیل کے لیے ” مروجہ اسلامی بینکاری“نامی کتاب کا مطالعہ کرلینا چاہیے۔)
نیز کسی بھی بینک سے قرضہ لینے کی صورت میں سود کا معاہدہ کرنا پڑتا ہے گو وہ کسی دوسرے نام سے کیا جاتا ہو،
اس لیے کسی بینک سے قرضہ لینااور اس سے کاروبار کرنا جائز نہیں ہے،
لہذا اگر قرض لینا ہی ہو تو بینک کے علاوہ کسی اور سے غیر سودی قرضہ حاصل کر لیں۔ فقط واللہ اعلم
ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144107200501
تاریخ اجراء :08-03-2020
📗 والحجة على ماقلنا📗
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ. قَالَ : قُلْتُ : وَكَاتِبَهُ وَشَاهِدَيْهِ ؟ قَالَ: إِنَّمَا نُحَدِّثُ بِمَا سَمِعْنَا،
(رواه مسلم وابن ماجه باب لعن اكل الربا)ج/٢/ص/٢٧
ويجوز للمحتاج الاستقراض للربح،
(البحر الرائق كتاب البيوع)ج/٦/ص/٢١١/م/زكريا ديوبند
والله أعلم بالصواب
بنده حقير مفتي شمس تبريز قاسمي والمظاهري
رابطہ:7983145589
٧ذيقعده/يوم الأربعاء/١٤٤٣
0 تبصرے