Ticker

6/recent/ticker-posts

قربانی کے جانوروں میں سال پورا ہونا ضروری ہے یا دانتا ہونا؟

قربانی کے جانوروں میں سال پورا ہونا ضروری ہے یا دانتا ہونا؟

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں

اگر بڑے جانور کا دو سال ہو گیا ہے دانتہ نہیں ہے کیا قربانی جائز ہے

حضرت والا سے درخواست ہے مدلل جواب عنایت فرمائیں گے؟

بإسمه تعالى

✒الجواب بعونه تعالى ✒

شریعت نے قربانی کے جانوروں کے لئے سال کی تعیین کی ہے،بکرا ،بکری وغیرہ کے لئے ایک سال،

گائے بھینس،بیل وغیرہ کے لئے دو سال،

البتہ دنبہ اور بھیڑ چھ سات ماہ میں سال بھر کا معلوم ہونے لگے تو سال پورا ہونے سے پہلے بھی قربانی جائز ہے،

اب دیکھیں کہ اگر جانور مذکورہ عمر کے مطابق ہے تو اس کی قربانی شرعاً جائز ہے،دانتا ہونا شرعاً معیار نہیں ہے

بلکہ دانتا ہونا یہ مذکورہ عمر کے پورے ہونے کی علامت ہے کیوں کہ دانتا ہوا جانور کم عمر کا نہیں ہوتا ہے

اور دوسری بات:دوسروں سے خریدتے وقت دانتا ہونے کا بھی لحاظ رکھا جائے کیوں کہ لوگ جھوٹ بولنے کے بھی عادی ہیں،

تو محض بیچنے والے کی بات کا اعتبار نہ کیا جائے،

صورت مذکورہ میں اگر واقعتاً

دو سال پورے ہو چکے ہیں تو قربانی درست ہے

کیونکہ شریعت میں اصل میعار سال کو قرار دیا گیا ہے دانتا ہونا کوئی معیار نہیں ہے،

یہ تو محض علامت ہے چونکہ بڑے جانور میں دانتا ہوا دو سال سے کم کا نہیں ہوتا ہے، اس لئے اس کی قربانی درست ہے.

جس جانور کے کان میں سوراخ ہو ایسے جانور کی قربانی

📗 والحجة على ماقلنا📗

وَصَحَّ الْجَذَعُ) ذُو سِتَّةِ أَشْهُرٍ (مِنْ الضَّأْنِ إنْ كَانَ بِحَيْثُ لَوْ خُلِطَ بِالثَّنَايَا لَا يُمْكِنُ التَّمْيِيزُ مِنْ بُعْدٍ.

(وَ) صَحَّ (الثَّنِيُّ) فَصَاعِدًا مِنْ الثَّلَاثَةِ وَالثَّنِيُّ (هُوَ ابْنُ خَمْسٍ مِنْ الْإِبِلِ،وَحَوْلَيْنِ مِنْ الْبَقَرِ وَالْجَامُوسِ، وَحَوْلٌ مِنْ الشَّاةِ)

(الشامي كتاب الاضحية)ج/٩/ص/٤٦٦/م/زكريا ديوبند

(وأما سنه) فلايجوز شيء مما ذكرنا من الإبل والبقر والغنم عن الأضحية إلا الثني من كل جنس وإلا الجذع من الضأن خاصةً إذا كان عظيماً،

وأما معاني هذه الأسماء فقد ذكر القدوري: أن الفقهاء قالوا: الجذع من الغنم ابن ستة أشهر، والثني ابن سنة۔ والجذع من البقر ابن سنة، والثني منه ابن سنتين.

والجذع من الإبل ابن أربع سنين، والثني ابن خمس. وتقدير هذه الأسنان بما قلنا يمنع النقصان،

ولايمنع الزيادة، حتى لو ضحى بأقل من ذلك شيئاً لايجوز، ولو ضحى بأكثر من ذلك شيئاً يجوز ويكون أفضل

(الفتاوي الهندية كتاب الاضحية باب محل اقامة الواجب)ج/٥/ص/٣٦٧/م/دار الكتب العلميةبيروت لبنان

واللہ اعلم بالصواب

بندہ حقیر شمس تبریز قاسمی والمظاہری.

رابطہ :7983145589

٩شوال المکرم،یوم الجمعہ.١٤٤٣

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے