سوال:اگر قرض کی ادائیگی میں ٹام مٹول کر رہا تو قرض دینے والا زکوٰۃ کیسے ادا کرے؟
السلام علیکم:زید نے بکر سے خالد کے لئے قرض لیا اور اب خالد لیکر بیٹھ گیا کچھ دھیان نہیں دیتا
اور لینے والے زید نے کچھ قرض اپنی طرف سے ادا بھی کر دیا اب اس صورت میں ان پیسوں کی زکوت کا کیا مسئلہ ھے
راہنمائ فرمائی
🕋باسمه تعالي🕋
🌿 وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته🌿
✒️ الجواب بعونه تعالي✒️
جواب سے پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ قرض کی تین شکلیں ہوتی ہیں،
پہلی شکل:وہ قرض جو مال تجارت کے بدلے میں یا بطورِ قرض کسی کے ذمے لازم ہوتی ہے اور قرض لینے والا اس قرض کا اقرار بھی کرتا ہے
اور اس کی ادائیگی پر قدرت بھی رکھتا ہے اور قرض دینے والا بآسانی اس سے حاصل کر سکتا ہے،
تو ایسے دین(قرض)کو دین قوی کہا جاتا ہے،
اور ایسے قرض کی زکوٰۃ قرض دینے والے پر واجب رہتی ہے،اور گزشتہ تمام سالوں کی زکوٰۃ ادا کرنی پڑے گی،
البتہ اس صورت میں شریعت کی طرف سے رعایت ہے کہ فی الحال اس رقم کی زکوٰۃ ادا کرنا واجب نہیں ہے،
بلکہ جیسے جیسے قرض وصول ہوگا اسی اعتبار سے زکوٰۃ نکالی جائے گی جیسا کہ حضرت امام ابو یوسف اور امام محمد علیہما الرحمۃ کا قول ہے،
اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے یہاں جب نصاب کا پانچواں حصہ وصول ہوگا تو اس کے بقدر زکوٰۃ نکالی جائے گی،
مثلاً دو سو درہم زکوٰۃ کا نصاب ہے،اس کا پانچواں حصہ چالیس درہم ہوتا ہے،
لہذا جب چالیس درہم کے بقدر وصول ہو جائے تو ایک درہم ادا کرتا جائے گا،
دوسری شکل:
اگر قرض لینے والا اقرار کر رہا ہے مگر مفلس و غریبی کی وجہ سے قرض ادا نہیں کر رہا ہے
تو یہ دین متوسط کے حکم میں ہوتا ہے اور آج کل بیشتر قرض اسی طرح کا ہوتا ہے
تو اس صورت میں حضرت امام ابو حنیفہ اور امام محمد علیہما الرحمۃ کے قول کے مطابق قرض ملنے کے بعد گزشتہ تمام سالوں کی زکوٰۃ ادا کرنا ضروری ہوگا،
کیوں کہ اس میں فقراء کا نفع ہے اور احتیاط اسی میں ہے،
اور امام محمد علیہ الرحمہ کے یہاں گزشتہ سال کی زکوٰۃ لازم نہیں ہے لیکن احتیاط امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول میں زیادہ ہے،
تیسری شکل:قرض کا اقرار کر رہا ہے اور ادائیگی کے لئے مقروض کے پاس پیسے بھی ہیں
لیکن ٹال مٹول کر رہا ہے اور صاحب مال کو اس سے حاصل کرنے پر قدرت بھی نہیں ہے
تو ایسی صورت میں قرض کی رقم پر فی الحال زکوٰۃ واجب نہیں ہے اور رقم ملنے کے بعد گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ بھی ادا کرنا ضروری نہیں ہے
بلکہ صرف مستقبل میں سال گزرنے پر زکوٰۃ واجب ہوگی،
اب دیکھیں صورت مذکورہ کا تعلق بظاھر دوسری یا تیسری شکل سے ہے،
اگر دوسری شکل ہے تو امام ابو حنیفہ اور امام محمد علیہما الرحمۃ کے مطابق قرض ملنے کے بعد گزشتہ تمام سالوں کی زکوٰۃ ادا کرنی پڑے گی فقراء کا خیال رکھتے ہوئے اور اسی میں احتیاط ہے،
اگر تیسری شکل ہے کہ قدرت کے باوجود ٹال مٹول کر رہا ہے
تو ایسی صورت میں گزرے ہوئے سالوں کی زکوٰۃ لازم نہیں ہے،
بلکہ رقم ملنے کے بعد مستقبل میں سال گزرنے کے بعد زکوٰۃ لازم ہوگی،
آپ غور کر لیں کونسی قسم کا قرض ہے اسی اعتبار سے حکم لگائیں
زکوٰۃ کی مزید تفصیل کے لئے پڑھیں
نیز اپنے رشتے داروں میں کس کس کو زکوۃ دینا جائز ہے ضرور پڑھیں
📗 والحجة على ماقلنا📗
أما القوي فهو اللذى وجب بدلا عن مال التجارة كثمن عرض التجارة من ثياب التجارة وعبيد التجارة أو غلة مال التجارة
ولا خلاف في وجوب الزكاة إلا انه لا يخاطب بأداء شيء من زكوة ما مضي ما لم يقبض أربعين درهما فكلما قبض أربعين درهما ادي درهما واحدا
وعند ابي يوسف ومحمد رحمهما الله كلما قبض شيئا يؤدي زكوته قل المقبوض أو كثر الخ،
(بدائع الصنائع كتاب الزكاة فصل من الشرائط اللتي ترجع إلي المال)ج/٢/ص/٩٠/م/زكريا ديوبند جديد،
وهكذا في البحر الرائق كتاب الزكاة/ج/٢/ص/٣٦٣/م/دار الكتب العلميةبيروت لبنان.
(ولو كان الدين على مقر مليء أو) على (معسر أو مفلس)أي محكوم بإفلاسه (أو) على (جاحد عليه بينة) وعن محمد لا زكاة،وهو الصحيح
(قوله أي محكوم بإفلاسه) أفاد أن قوله مفلس مشدد اللام، وقيد به لأنه محل الخلاف لأن الحكم به لا يصح عند أبي حنيفة فكان وجوده كعدمه فهو معسر ومر حكمه،
ولو لم يفلسه القاضي وجبت الزكاة بالاتفاق كما في العناية وغيرها لأن المال غاد ورائح (قوله: وعن محمد لا زكاة) أي وإن كان له بينة بحر (قوله: وهو الصحيح) صححه في التحفة كما في غاية البيان وصححه في الخانية أيضا وعزاه إلى السرخسي بحر.
(الشامي كتاب الزكاة)ج/٣/ص/١٨٤/م/زكريا ديوبند
يقر المديون بالدين وبملائته ولا يقدر الدائن على تخليصه منه فهو بمنزلةالعدم،
(الشامي كتاب الزكاة باب المصرف)ج/٣/ص/٢٩١/م/زكريا ديوبند
المستفاد فتاوى قاسمية/ج/١٠
والله أعلم بالصواب
بنده حقير مفتي شمس تبريز قاسمي والمظاهري
رابطہ:7983145589
0 تبصرے